ایم ایم احمد ۔ شخصیت اور خدمات

فہرست مضامین

حضرت بھائی جان رحمہ اللہ تعالیٰ: قُربت، ہم عصری اور دوستی کی یادیں

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کی وفات جماعت کے لئے ایک زلزلہ کے رنگ میں آئی۔ ایک مختصر سے علالت جس کے آخری آیام میں بظاہر امید کا پہلو غالب نظر آرہا تھا وہ اللہ کو پیارے ہو گئے اور جماعت کو ایک سکتہ کی حالت میں چھوڑ گئے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے غیبی ہاتھ نے جماعت کی پراگندگی کی حالت کو سکون اور امن میں بدل دیا۔

ان دنوں میں میری طبیعت اچھی نہ تھی اور چند ایام پہلے اسی وجہ سے ایک ضروری میٹنگ جو فن لینڈ میں ہو رہی تھی اس میں شمولت کا پروگرام منسوخ کرنا پڑا۔ نیز وفات کی اطلاع اور تدفین میں اتنا تھوڑا وقت تھا کہ امریکہ سے حاضری اور شمولیت بہت مشکوک بن گئی تھی۔ شامل نہ ہونے کا غم اور آخری دیدار سے محرومی میری زندگی کے غم کا ایک تکلیف دہ جزو بن کے رہ گیا ہے۔

حضرت بھائی جان (خلیفۃ المسیح الثالث) سے میرا ایک قرابت کا رشتہ تھا۔ نیز ہمعصری اور دوستی کی سعادت بھی تھی نصف صدی سے زائد کے سارے واقعات ذہن میں تازہ ہو گئے۔ بچپن سے حضرت صاحب کو اماں جان نے اپنی پرورش میں لے لیا تھا اور حضرت مصلح موعود اور حضرت ام ناصر کے گھر سے وہ حضرت اماں جان کے گھر میں آگئے تھے۔ لاہور میں میرے کالج میں داخل ہونے سے تھوڑا عرصہ پہلے حضرت اباجان (حضرت مرزا بشیر احمد صاحب) نے مجھے بھی حضرت اماں جان ہاں بھجوا دیا تھا اور ایک ہی بڑے کمرہ میں حضرت اماں جان کے ساتھ ہم نے یہ بابرکت وقت اکٹھا ہی گزارا۔ کمرہ کے ایک گونہ میں جو شمالی دیوار کی طرف بیت الدعا کے قریب تھا اس میں حضرت اماں جان کا بڑا پلنگ ہوتا تھا اور جنوبی دیوار کی طرف جو بیت مبارک کی سمت تھی دو کونوں میں ہمارے علیحدہ پلنگ تھے۔ میں نے نوٹ کیا کہ حضرت بھائی جان جب بھی گھر سے باہر جاتے تھے حضرت اماں جان سے اجازت لے کر جاتے تھے اور جن الفاظ سے حضرت اماں جان اجازت دیتی تھیں وہ میرے کانوں میں اب بھی گونج رہے ہیں۔ حضرت اماں جان ہمیشہ یہ دعائیہ الفاظ کہہ کر اجازت دیتی تھیں۔ ’’جاؤ اللہ حافظ و ناصر ہو‘‘ بڑی محبت اور بڑی گہرائی سے حضرت اماں جان یہ دعائیہ فقرہ کہتی تھیں۔ یادوں کی اس پرانی فلم کی ایک تصویر میں حضرت بھائی جان کا بیت مبارک میں بیٹھنا سامنے آتا ہے جب وہ مکرم حافظ محمد ابراہیم صاحب سے حفظ قرآن کا سبق لیتے اور مشق کرتے تھے۔ تعلیم کے آغاز میں سب سے مقدم قرآن کریم حفظ کرنا ہی تھا۔ دن کاکھانا حضرت اماں جان کے ساتھ کئی مرتبہ باورچی خانے میں چولہے کے پاس بیٹھ کر کھاتے تھے اور کئی مرتبہ حضرت اماں جان خود اپنے ہاتھ سے روٹی پکا کر دیتی تھیں۔ رات کا کھانا سردی کے موسم میں حضرت اماں جان کے بڑے دالان میں کھایا جاتا جو ہم سب کے سونے کا کمرہ بھی تھا اور جس میں سے بیت الدعا کو راستہ بھی جاتا تھا۔ کھانا فرش پر چُنا جاتا تھا یا پھر اس کے لئے ایک چوکی بچھتی تھی جس پر کھانا چُنا جاتا تھا اور اس کے چاروں طرف کھانے والے بیٹھتے تھے۔ گرمیوں کے موسم میں رات کا کھانا صحن کے بالائی حصہ میں ایک تخت پوش کے اوپر کھایا جاتا تھا۔ حضرت مصلح موعود اکثرمغرب کی نماز کے بعد حضرت اماں جان کے ساتھ کچھ وقت گزارتے تھے۔ اس موقع پر کمرہ یا صحن میں ٹہلتے رہتے اور باتیں بھی اسی طرح ٹہلتے ہوئے کرتے تھے اس موقع پر اکثر حضرت اباجان بھی ساتھ ہوتے تھے اور چھٹیوں کے ایام میں حضرت ماموں جان (حضرت میر محمد اسمٰعیل صاحب سول سرجن) بھی موجود ہوتے اکثر دینی مسائل اور سلسلہ کی باتیں ہوتی تھیں اور جب حضرت مصلح موعود تشریف لے جاتے تھے تو کھانا شروع ہوتا تھا جومغرب اور عشاء کے درمیان کھایا جاتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ حضرت مصلح موعود مغرب کی نماز سے فارغ ہو کر تشریف لائے اور ہم بچوں سے مخاطب ہو کر فرمایا دیکھو قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور علم کا سمندر ہے۔ تم لوگ اس پر غور کرنے کی عادت ڈالو۔ اس غور کی عادت کے ثبوت میں اگر کوئی موتی نکال کر پیش نہیں کر سکتے تو کم از کم ایک سیپی ہی نکالو تاکہ معلوم ہو سکے کہ تم نے غور کی اس عادت کو اپنا لیا ہے۔ غرضیکہ یہ ایام بڑی برکتوں والے تھے اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کی تربیت حضرت اماں جان کی براہ راست نگرانی میں اسی پاکیزہ ماحول میں ہوئی۔

قرآن کریم کے حفظ کرنے کے بعد حضرت بھائی جان نے مدرسہ احمدیہ میں پڑھ کر مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا اور اس کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور میں بی۔ اے تک پڑھتے رہے۔ ان ایام میں احمدیہ ہاسٹل پہلے ٹمپل روڈ پر رہا اور پھر چوبرجی کے علاقہ میں بہاولپورروڑ پر ایک کوٹھی میں منتقل ہوا۔ گورنمنٹ کالج میں طالب علمی کے ایام میں مجھے یاد ہے حضرت بھائی جان نے دعوت الی اللہ کے لئے چھوٹے چھوٹے پمفلٹوں کا سلسلہ شروع کیا۔ دو ورقہ یہ پمفلٹ ہوتے تھے جو بڑے عمدہ کاغذ پر شائع کرتے تھے۔ چند منٹ میں پڑھے جاسکتے تھے۔ ان کی تقسیم پر کالج کے حلقوں میں کافی ہلچل اور دلچسپی پیدا ہوئی اور طالب علموں میں دعوت الی اللہ کا ایک دلکش طریق رائج ہوا۔

اس کی وجہ سے احمدی طلباء اور ان کے ساتھیوں میں بحث مباحثے بھی ہوتے رہے جن میں ملک عبدالرحمن صاحب خادم پیش پیش تھے اور بڑی قابلیت اور موثر طریق پر بحث کرتے تھے اور بڑی حاضر جوابی سے ساکت کرنے والے دلائل دیتے تھے۔

کالج کے بعد پھر ہمیں اکٹھے رہنے کا موقع انگستان میں نصیب ہوا۔ حضرت بھائی جان آکسفورڈ میں BALLIOL کالج میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ ہم دوسرے بھائی (مرزا ظفر احمد، مرزا سعید احمد اور خاکسار) لندن میں تھے۔ گو آخری سال 1938ء میں میں بھی آکسفورڈ چلا گیا تھا۔ ان دنوں حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب جب انگلستان تشریف لاتے تھے تو آکسفورڈ میں بھی آتے تھے اور حضرت بھائی جان کے ساتھ کچھ وقت گزارتے تھے۔ آکسفورڈ میں حضرت بھائی جان مختلف لائبریریوں اور کتب کی دکانوں پر جاتے تھے اور دلچسپی اور گہری جاذبیت سے مطالعہ جاری رکھتے تھے۔

تعلیم سے فراغت کے بعد قادیان واپسی کا زمانہ آیا جو 1939ء سے 1947ء تک قیام پاکستان کا ہے۔ لندن سے فراغت کے بعد حضرت مصلح موعود کی ہدایت کے تحت حضرت بھائی جان نے چند ماہ مصر میں عربی زبان بولنے کی مشق کے لئے بھی قیام فرمایا۔ قادیان واپسی پر تعلیمی ذمہ داریوں کے علاوہ سلسلہ کی خدمت میں انہماک سے کام کیا۔ چونکہ اس عرصہ میں میں ملازمت کے سلسلہ میں قادیان سے باہر رہا اس لئے حضرت بھائی جان کی ان برسوں کی مصروفیات کا عینی شاہدنہ تھا لیکن اس لمبے عرصہ کے دو واقعات میرے ذہن میں حاضر ہیں۔ اول اسمبلی کے الیکشن کے ایام تھے جس میں حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال جماعت کی طرف سے بطور نمائندہ کھڑے ہوئے تھے اور ان کا مقابلہ بٹالہ کے ایک بااثر گدی نشین خاندان کے سربراہ سے تھا۔ ان دنوں حضرت بھائی جان نے بڑی مستعدی اور بڑی جانفشانی سے دن رات ایک کرکے کام کیا اور یہ کیفیت کئی ہفتہ تک رہی۔ حضرت اباجان تمام کام کے انچارج تھے اور ہمارے گھر کے مردانہ حصہ میں ایک قسم کا آپریشن روم بنا ہوا تھا اور چوبیس گھنٹے گہما گہمی رہتی تھی۔ حضرت بھائی جان مشقت برداشت کرنے کے پوری طرح عادی تھے اور رات دن اس کام میں مصروف رہتے۔ نہ کھانے کا ہوش اور نہ آرام کی فکر۔ ایک ہی دھن تھی کہ سلسلہ کے کام کا کوئی پہلو نامکمل نہ رہ جائے۔ اللہ تعالیٰ نے کامیابی بھی عطا کی اور جماعت باوجود سخت مخالفت کے سرخرو ہوئی۔ دوسرا واقعہ تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے دوران تھا۔ ان دنوں میں اس کام کے انچارج حضرت بھائی جان تھے اور بڑی جانفشانی، بڑی دلیری اور بڑی ہمت سے کام کیا۔ جماعت کے افراد کو اور حقیقتاً تمام علاقہ کے مسلمانوں کو بڑی حد تک دشمنوں کے پیہم حملوں سے محفوظ رکھا اور جانی نقصان برائے نام ہوا۔ ایک ایک وقت میں ستر ستر ہزار لوگوں کے کھانے اور رہائش کا انتظام کیا اور ان کو حفاظت سے پاکستان پہنچایا۔ ان دنوں کے اخبارات میں کئی مرتبہ جماعت کی اس قربانی اور دلیرانہ دفاع کا ذکر کیا اور جماعت کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ یہ حضرت بھائی جان کی فیلڈ میں قیادت اور ہمت اور محنت کا ثمرہ تھا۔ ان دونوں واقعات میں حضرت بھائی جان کے خصوصی اوصاف ابھر کر سامنے آئے۔ محنت، ہمت، شجاعت، دلیری، سادگی، پلاننگ اور حکمت عملی کے کل اوصاف اپنی پوری شان سے جلوہ گر رہے۔

پاکستان کے قیام کے بعد ربوہ منتقل ہونے تک قیام رتن باغ لاہور میں رہا اور اس عرصہ میں تعلیم الاسلام کالج کے پرنسپل کے عہدہ پر فائز رہے۔ یہ دور بھی بڑی محنت کا دور تھا۔ لٹے ہوئے بے سروسامان سب آئے اور اس خاک سے ایک کامیاب تعلیمی ادار کو اٹھایا جس نے تعلیمی درسگاہوں میں ایک امتیازی حیثیت حاصل کی۔ جب یہ ادارہ ربوہ میں منتقل ہواتو ایک بار پھر بے سروسامانی کی حالت میں کام شروع ہوا۔ نئی عمارت حضرت بھائی جان نے اسی لگاؤ اور محنت سے بڑی کفایت اور تھوڑی رقم میں مکمل کروائی اور ہماری اس درسگاہ نے صوبہ بھر میں امتحانات اور اخلاقی اقدار اور سپورٹس میں کامیاب اور امتیازی حیثیت حاصل کی۔

کالج کی ذمہ داریوں کے ساتھ حضرت مصلح موعود کی لمبی بیماری کے زمانہ میں جماعت کے بہت سے بوجھ آپ کے ہی کندھوں پر پڑے اور خوشی اسلوبی سے سر انجام پائے یہ ایک تاریخی دور تھا جس کی تاریخ کسی صاحب قلم کی منتظر ہے۔ حضرت مصلح موعود کی طویل علالت کئی الٰہی مصلحتیں لئے ہوئے تھی اور ایک نہایت پُرشوکت، بابرکت اور الٰہی وعدوں سے معمور پچاس سال سے زائد دور اپنے اختتام کی طرف جا رہا تھا اور آنے والی قیادت کوتیار کرتے ہوئے اس کے لئے راستہ صاف کر رہا تھا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کا دور خلافت قریباً سترہ سال رہا۔ حضرت مصلح موعود کی زائد از پچاس سالہ خلافت ایک نہایت شاندار اور پُرشوکت اور برکتوں سے معمور خلافت تھی جو جماعت میں بلکہ دنیا بھر کی الٰہی تحریکات میں ایک خاص امتیاز رکھتی ہے۔ جس نے مخالفتوں کے طوفانوں میں سے اپنا راستہ صاف کرتے ہوئے جماعت کو ایک مضبوط چٹان کی طرح بین الاقوامی حیثیت میں لاکھڑا کیا۔ ایسی عظیم الشان خلافت کی جانشینی کوئی معمولی بات نہ تھی لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم نے حضرت بھائی جان کو توفیق بخشی کہ جماعت کی قیادت کے فرائض اس طور پر انجام دیئے کہ جماعت ترقی پر ترقی کرتی چلی گئی۔ تعداد میں، غیر ممالک میں پھیلاؤ میں، مالی قربانی میں، اشاعت قرآن کریم میں، تعلیمی ترقی میں اس نے ہر دن اپنا قدم آگے بڑھایا۔ اس دوران میں صدسالہ جوبلی منصوبہ نصرت جہاں فنڈ اور افریقہ کے ممالک میں تبلیغی مساعی اور خدمت خلق میں شاندار کام سرانجام پایا۔ تعلیم میں فروغ اور احمدی طالب علموں اور طالبات میں تعلیمی میدان میں آگے بڑھنے کا خوشکن ولولہ پیدا کیا۔ یہ ہماری تاریخ کا ایک اہم باب ہے اور آنے والا مؤرخ اپنے وقت پر ان کے نقوش کو اجاگر کرے گا۔ فی الحال میرے مضمون کا اصل مقصد ان تفاصیل کا بیان نہیں۔ انہی سنہری کارناموں میں 1974ء کے واقعات ایک اہم حیثیت رکھتے ہیں۔ جماعت اس کٹھن امتحان اور ابتلاء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کی قیادت میں پوری شان سے سرخرو نکلی۔ ان واقعات پر اس وقت روشنی نہیں ڈالی جاسکتی۔ لیکن کون نہیں جانتا کہ ان واقعات کو جماعت کی تاریخ میں ایک اہم مقام حاصل ہے جو کسی روز اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ دنیا کے سامنے آئیں گے۔ انشاء اللہ۔

حضرت بھائی جان کو اپنی زندگی کے آخری چند ماہ ایک گہرا زخم و صدمہ اپنی رفیقۂ حیات حضرت آپا منصورہ بیگم کی اچانک وفات کی صورت میں پہنچا۔ حضرت اماں جان نے خود یہ رشتہ بڑی چاہت اور دعاؤں کے ساتھ کیا اور ان دعاؤں کے ثمرہ میں یہ ایک مثالی جوڑے کی شکل میں ہمیشہ قائم و دائم رہا۔ ان کی وفات پر حضرت بھائی جان پر طبعاً ایک بہت گہرا اثر تھا لیکن آپ نے کمال صبرو ضبط سے کام لیتے ہوئے اپنے غم کو اپنے سینہ میں ہی دبائے رکھا اور جماعت کے لئے اللہ کی تقدیر پر رضا اور ضبط و تحمل کا ایک نایاب نمونہ پیش کیا۔ 1981ء کے جلسہ سالانہ پر جب میں اس صدمہ کے بعد پہلی مرتبہ ملا تو مصافحہ کے لئے اُٹھتے ہوئے دور سے ہی صرف ’’انا للہ ……‘‘ کہا بعد کی ملاقات میں کئی مرتبہ ذکر آیا۔ پرانی تصاویر جو آپا کے ساتھ تھیں دکھائیں ان میں سے انتخاب کرتے رہے پھر ایک روز ہمارے کمرہ میں تشریف لائے اور فرمایا کہ منصورہ کی وفات کے دوسرے روز میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ یا اللہ میری ایک دفعہ منصورہ سے ملاقات کرا دے تو اس رات کشفی حالت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی کمال شفقت سے اس خواہش کو پورا کیا۔ آپ نے تفصیل سے اسے بیان کیا اور فرمایا کہ منصورہ بیگم نے ایک نہایت خوبصورت رنگ کا لباس پہنا ہوا تھا۔ اور ستونوں والی ٹیرس کی شکل کی ایک عمارت میں جو سات طبقات میں تقسیم شدہ تھی اس میں ان کی ملاقات کے لئے مجھے لے جایا گیا۔ ایک مقام پر پہنچ کر مجھے آواز آئی کہ اس سے آگے نہ تم اوپر جا سکتے ہو اور نہ وہ نیچے آسکتی ہیں۔ وہاں میں نے منصورہ بیگم کو دیکھا۔ نہایت ہی خوشنما منظر تھا اور منصورہ بیگم بہت خوش تھیں اور میرے دل میں اس ملاقات کی وجہ سے بڑا سکون پیدا ہوا۔

انہی دنوں قصر خلافت اور دفاتر پرائیویٹ سیکرٹری اور ملاقات کے کمروں کی تعمیر ہو رہی تھی خودنگرانی فرماتے تھے اور نماز کے لئے جاتے ہوئے۔ واپسی پر کچھ قیام فرما کر ہدایات دیا کرتے تھے۔ ایک روز مجھے فرمانے لگے کہ اس پر خرچ کافی آرہا ہے۔ ضروریات بھی بڑھ چکی ہیں اور تعمیر کی لاگت بھی۔ میں نے لمبا عرصہ ایک نیم شکستہ مکان و دفتر میں گزارا کیا۔ پھر سوچا کہ یہی تذبذب آنے والے خلیفہ کو بھی ہوگا۔ سترہ سال قریباً ناقابل استعمال مکان میں رہتے ہوئے اگر یہ بن جائے تو کم از کم اگلے خلیفۂ وقت کو اس تذبذب اور ہچکچاہٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔

تفریحات میں آپ کا شغف زمیندارہ، پھول، قدرت کے نظارے، شکار، تیراندازی اور گھوڑوں خصوصاً عربی نسل کے گھوڑوں میں مرکوز تھا۔ قدرت کے حسین نظاروں سے بہت لطف اٹھاتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے تھے ان کی تصاویر بھی لیتے تھے اور بہت شوق سے دکھاتے تھے۔ جن امور میں دلچسپی ہوتی تھی اس پر متعلقہ کتب کا اہتمام سے مطالعہ کرتے تھے۔ اور وسیع علم رکھتے تھے جو حیران کن ہوتا تھا۔ گھوڑوں پر بہت سے باتصویر کتب اکٹھی کی تھیں اور زیر مطالعہ رکھتے تھے۔ طب سے بھی دلچسپی تھی خصوصاً ہومیوپیتھی دوائیوں سے۔ بیماروں اور حاجت مندوں میں شوق سے ادویات تجویز کرتے تھے اور خود تقسیم بھی کرتے تھے۔ اپنے استعمال میں نیچرل فوڈسپلیمنٹ اور وٹامنز کو ترجیح دیتے تھے۔ ان میں سے بہت سے امور میں خاندانی روایات کی جھلک تھی اور ایک پاکیزہ دلچسپی کے علاوہ خدمت خلق کا جذبہ بھی تھا۔

بچوں سے بہت پیار کرتے تھے اور ان میں کسی رنگ یا نسل کی تمیز کو گوارا نہ فرماتے تھے۔ حبشی اور پسماندہ اقوام کے بچوں سے دوسروں سے بڑھ کر محبت اور لگاؤ کا اظہار فرماتے تھے اور نئی نسل کے لئے ایک تڑپ تھی کہ یہ تعلیم اور اخلاق میں دوسروں سے ہرجہت اور ہر لحاظ سے آگے نکلیں۔ اس جذبہ سے بچوں اور نوجوانوں کے لئے تعلیم میں دلچسپی اور ترقی کے لئے انعامات اور ذاتی خط و کتابت کی مختلف سکیموں کا اعلان فرمایا اور ان کی بہبود پر اپنی توجہ مرکوز کی۔

بنی نوع انسان سے شفقت اور ان کی بھلائی آپ کی حسین اخلاق کا ایک اہم حصہ تھا۔ غیروں سے بہت تلخیاں اٹھائیں لیکن تعصب و نفرت کا جوب حسن سلوک اور محبت سے دیا۔ گالیاں سنیں اور دعائیں دیں اور باوجو دہر قسم کے دباؤ اور انگیخت کے جماعت کے افراد کو احمدیت کی حسین تعلیم سے بھٹکنے نہیں دیا۔ حوصلہ کا یہ جوہر ایک باخدا انسان ہی دکھا سکتا ہے۔ اشاعت دین کی مہم میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کی خاص دلچسپی اور توجہ یورپ اور افریقہ میں نئے مشن اور بیوت الذکر کے قیام اور ترجم قرآن کریم اور اس کی اشاعت میں نمایاں طور پر قائم رہی۔ بیوت کی تعمیر میں سب سے زیادہ دلچسپی کا مرکز پیدروآباد سپین میں بیت بشارت رہی جگہ کا انتخاب، تعمیر کا نقشہ اور تعمیر کے مختلف مراحل غرضیکہ ہر جہت میں پوری دلچسپی لی اور بے تابی سے اس کی تکمیل کے منتظر رہے۔ 1981ء کے جلسہ کے موقع پر جب میں گیا تو بیت کے آئے ہوئے فوٹو مجھے دکھائے اور خاص طور پر تفصیلاً بتلایا کہ اس کے مینارے میں نے قادیان کے منارہ المسیح کے نقشہ پر تیار کروائے ہیں۔ اور بہت بھلے لگ رہے ہیں۔ ایک فوٹو مجھے بھی عنایت کیا اور کئی مرتبہ مختلف مواقع پر اس کو اپنا موضوع گفتگو بنایا۔ اللہ تعالیٰ کی تقدیر کو کچھ اور ہی منظور تھالیکن سپین میں دین کادوبارہ احیاء ہمیشہ کے لئے آپ کے نام اور کام سے منسوب رہے گا اور سپین کی آنے والے نسلیں آپ کا نام محبت اور احترام اور گہرے تشکر کے جذبات سے یاد رکھیں گی۔ اللہ تعالیٰ کی حکمت نے انسان کے جسم کو توفانی ر کھا ہے لیکن اس کے نیک کاموں کو دوام بخشا ہے جو مرورِ زمانہ سے مٹتے نہیں بلکہ اور اجاگر ہوتے ہیں۔ مجھے یاد آیا کہ حضرت بھائی جان کے انتخاب خلافت کے چند ماہ بعد میرے ایک نہایت پیارے اور مخلص دوست مجھے ملے اور فرمانے لگے کہ حضرت صاحب کے خطبوں کا کیا رنگ بدلا ہے اور کیسی پرُمعارف باتیں حضور بیان کرتے ہیں پہلے اس کا خیال اور اندازہ نہ تھا کہ یہ جوہر موجود ہے۔ بات بڑی سچی تھی اور وہ حقیقت جو ہمارے بزرگ ہمیشہ بتلاتے چلے آتے تھے کہ گو خلیفہ مومنوں کی ایک جماعت منتخب کرتی ہے لیکن حقیقت میں یہ انتخاب اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے اور اس کے فرشتے مومنوں کے دلوں کو اس کی طرف موڑ دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی حيّ و قیّوم ذات والا صفات ایک نئے وجود کو جنم دیتی ہے اور جو آخری وقت تک اس کے ہاتھ میں الٰہی تقدیر کی تکمیل میں ایک آلہ بن کر منزل مقصود کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے۔ وہ اس کے کاموں میں برکت دیتا ہے اس کی دعاؤں کو سنتا ہے۔ اس کو علم و عرفان کی دولت بخشتا ہے اور ہر قدم پر اس کی راہ نمائی فرماتا ہے۔ ہم دو بار یعنی 1965ء اور پھر 1982ء میں اس بنیادی سچائی کے عینی شاہد بنے ہیں اور کسی فلاسفر کی کوئی منطقی دلیل یا دعویٰ اس سچائی کو ہمارے دلوں سے مٹانے میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اور ہماری اولادوں کو اس سچائی پر ہمیشہ قائم رکھے اور اس وابستگی کو مضبوط سے مضبوط تر کرتا چلا جائے اور ہر دم خلیفۂ وقت کی اطاعت و فرمانبرداری اور اس کی تحریکات میں والہانہ شمولیت کی توفیق بخشے۔ آمین

(ماہنامہ خالد سیدنا ناصر نمبر)