ایم ایم احمد ۔ شخصیت اور خدمات

فہرست مضامین

حضرت مصلح موعود کی یاد میں

یہ مختصر سا مضمون میرے ان مشاہدات اور تجربات پر مبنی ہے جو خوش قسمتی سے مجھے حضرت مصلح موعو د کے اپنے بچپن سے پختہ عمر تک بہت قریب سے دیکھنے سے نصیب ہوئے۔

میری سب سے پہلی یاد مجھے اس زمانہ میں لے جاتی ہے جب میں حضور کو حضرت اماں جان کے صحن سے نماز پڑھانے بیت الذکر جاتے ہوئے دیکھتا ہوں۔ نماز سے واپسی پر آپ اپنا کچھ وقت خاص طور پر مغرب کی نماز کے بعد حضرت اماں جان کی صحبت میں گذارتے اور ان عزیزوں سے بھی گفتگو فرماتے جو وہاں موجود ہوتے۔ کئی مرتبہ خاص طور پر سردیوں کے موسم میں آپ پہلے بیت الدعاء میں سنتیں ادا فرماتے۔ ان موقعوں پر آپ صحن یا اگر موسم زیادہ خشک ہو تو حضرت اماں جان کے کمرے میں ٹہلتے رہتے اور بعض مرتبہ حضرت اباجان یا پھر حضرت میر محمد اسماعیل صاحب جو اپنی ہمشیرہ حضرت اماں جان سے ملنے تشریف لائے ہوتے کے ساتھ جماعتی امور پر تبادلہ خیال فرماتے۔ آپ بچوں سے بھی گفتگو فرماتے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ آپ نے فرمایا کہ قرآن مجید حکمت و دانش کا سمندر ہے تم بچوں کو اس کے مطالعہ اور اس پر غور کرنے کی عادت ڈالنی چاہئے تاتم اس سے حکمت کے موتی نکال سکو۔ اگر تم ابھی بالغ نظری کی عمر تک نہیں بھی پہنچے تو کم از کم سیپیاں ہی نکالنے کی اہلیت پیدا کر لو۔

آپ کی قرآن مجید سے محبت

آپ کی قرآن سے محبت اور لگاؤ گہرا اور دائمی تھا ہفتہ کے روز آپ مستورات میں درس دیتے۔ وہ نظارہ ابھی بھی میری نظروں کے سامنے گھومتا ہے کہ آپ حضرت اماں جان کے گھر کے برآمدہ میں کھڑے ہیں۔ مستورات سامنے صحن، برآمدہ اور ملحقہ کمروں میں بیٹھی ہیں۔ ان دنوں میں بہت تھوڑی تعداد ہوتی تھی، نیز آپ مردوں میں بھی درس قرآن دیتے جس میں بچے بھی شریک ہوتے۔ ایک مرتبہ آپ نے بیت اقصیٰ میں درس دیا جس میں نہ صرف قادیان بلکہ باہر سے بھی دوستوں نے شرکت کی یہ درس کئی ہفتے جاری رہا اور روزانہ کئی کئی گھنٹوں پر پھیلا ہوتا۔ گذشتہ رمضان کے موقعہ پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ نے حضرت مصلح موعود کی اس پیشگوئی کا بھی ذکر کیا جس میں آپ نے فرمایا کہ ایک دن آنے والا ہے کہ خلیفۂ وقت کے درس قرآن ایک ہی وقت میں تمام دنیا میں نشر ہوا کریں گے۔ حضور کی یہ خواہش آج دنیا پوری ہوتی دیکھ رہی ہے۔ میری جب حضرت مصلح موعود کی بیٹی سے شادی ہوئی تو ہم نے گرمیوں کی چھٹیاں آپ کے ساتھ دھرمسالہ میں گزاریں۔ حضور نے خود تجویز فرمایا کہ وہ قرآن مجید کے مطالب کے بارہ میں مجمع میں درس دیا کریں گے۔ میں اس پرائیویٹ درس کے نوٹ لیا کرتا تھا۔ آپ کی تفسیر کبیر اور تفسیر صغیر جو کئی جلدوں پر مشتمل ہیں آپ کی قرآن مجید سے بے پناہ محبت کا مینار ہیں جن میں قرآن کے بے مثل معارف اور ابدی پیغام کو انتہائی خوبصورت اور اچھوتے انداز میں بیان کیا گیا۔ اس تفسیر کا بیشتر حصہ اس زمانہ میں لکھا گیا جب آپ کی صحت بہت کمزور تھی، مجھے وہ دن بھی اچھی طرح یاد ہیں جب حضور جابہ کے مقام پر میدانوں کی شدید گرمی سے بچنے کے لئے تشریف لے جاتے اور یہاں گھنٹوں تفسیر کی تیاری میں صرف فرماتے۔

دعا کی قوت پر کامل یقین

آپ کے کردار کا ایک نمایاں پہلو دعا پر کامل یقین اور اعتماد تھا۔ جب بھی جماعت پر کوئی ابتلاء آتا تو آپ بیت الدعا میں گھنٹوں دعا میں صرف فرماتے۔ میں نے ہجرت کے موقعہ پر کئی مرتبہ دیکھا کہ آپ جب بیت الدعا سے باہر تشریف لاتے تو آپ کی آنکھیں سرخ اور متورم ہوتیں۔ میں ان دنوں پاکستان گورنمنٹ کی طرف سے بطور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر امرتسر میں اور گورنمنٹ آف انڈیا کی طرف سے ایک سکھ دوست اسی عہدہ پر متعین تھا جبکہ ڈپٹی کمشنر کا عہدہ ایک انگریز کے پاس تھا۔ اسے ہدایت تھی کہ امرتسر کے متعلق جو بھی فیصلہ ہو کہ آیا اس کا الحاق ہندوستان یا پاکستان سے ہوگا اسی کے مطابق وہ متعلقہ ڈپٹی کمشنر کو چارج دیدے گا۔ ایک روز ڈپٹی کمشنر نے لاہور سے واپسی پر مجھ سے سرسری طور پر ذکر کیا کہ اس بات کا امکان ہے کہ گورداسپور کا ضلع انڈیا کو دے دیا جائے اس پر میں نے سخت حیرانگی کا اظہار کیا کہ جن خطوط پر پارٹیشن کا فیصلہ طے کر لیا گیا ہے اس لحاظ سے تو مسلم اکثریت والا علاقہ جو دوسرے مسلم اکثریت والے علاقہ سے ملحق ہو وہ پاکستان میں شمار ہوگا۔ اس اصول کے تحت تو ہر لحاظ سے اسے پاکستان کے حصہ میں جانا چاہئے میری اس دلیل سے پریشان ہو کر اس نے کہا کہ لاہور آج کل افواہوں کا مرکز بنا ہوا ہے اور آدمی ان افواہوں پر یقین تو نہیں کر سکتا نیز اس نے مجھے مشورہ دیا کہ میں قادیان چلا جاؤں کیونکہ سی۔ آئی۔ ڈی کی رپورٹ کے مطابق میری رہائش گاہ پر بم پھینکنے کا پروگرام ہے۔ اس نے کہا کہ امرتسر کے پاکستان سے الحاق کی صورت میں وہ مجھے قادیان سے بلا لے گا۔ اس پر میں قادیان روانہ ہو گیا اور حضور کی خدمت میں قصر خلافت جاکر اس کی اطلاع دی۔ اس پر حضور نے فرمایا کہ تھوڑا عرصہ قبل آپ کو الہام ہوا ہے۔ (تم جہاں بھی ہوگے اللہ تم کو اکٹھا کر دے گا)

ایک اور واقعہ جس کا آج تک میرے دل و دماغ پر گہرا اثر ہے اور مجھے اس طرح لگتا ہے کہ جس طرح کل کا واقعہ ہو کہ میں رات کو اپنے قادیان والے گھر کے باہر والے مردانہ حصہ کے صحن میں سویا ہوا تھا گرمیوں کا موسم تھا کہ میری آنکھ دردناک دل ہلا دینے والی کرب میں ڈوبی ہوئی آواز سے کھل گئی اور مجھے خوف محسوس ہوا۔ جب میں نیند سے پوری طرح بیدار ہوا تومجھے احساس ہوا کہ حضرت مصلح موعود تہجد کی نماز، جو آپ حضرت ام ناصر والے مکان کے اوپر والے صحن میں ادا فرما رہے تھے جس کی دیوار ہمارے گھر سے ملحقہ تھی، کی دردناک دعاؤں کی آواز تھی۔ میں نے غور سے سننے کی کوشش کی تو آپ بار بار ’’اھدنا الصراط المستقیم‘‘ کو اتنے گداز سے پڑھ رہے تھے کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ ہانڈی ابل رہی ہو اور مجھے یوں لگا کہ آپ نے اس دعا کو اتنی مرتبہ پڑھا جیسے کبھی ختم نہ ہوگی۔ اس رات کی یاد مجھے جب تک زندہ ہوں کبھی نہ بھولے گی۔

آپ کی جماعت سے گہری محبت

آپ کو جماعت سے بے پایاں محبت تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب بھی قادیان سے کوئی قافلہ پاکستان کے لئے روانہ ہوتا تو آپ حمائل شریف لے کر برآمدہ میں اس وقت تک ٹہلتے ہوئے تلاوت فرماتے رہتے جب تک اس قافلہ کی حفاظت سے سرحد پار کرنے کی اطلاع نہ آجاتی۔ ان مواقع پر آپ مسلسل دعا کرتے رہتے۔

یہ بات بھی میرے علم میں ہے کہ جب بھی جماعت کسی ابتلاء کے دور سے گزر رہی ہوتی تو آپ بستر پر سونا ترک کرکے فرش پر سوتے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس آزمائش کے بادل چھٹنے کا اشارہ ملتا کہ چلو جا کر بستر پر آرام کرو۔

ایک اور بات جس نے مجھ پرانمٹ نقوش چھوڑے یہ کہ میری شادی کے تھوڑے عرصہ بعد ہی جب میں ملتان میں بطور اسسٹنٹ کمشنر متعین تھا اور میری بیوی کے ماموں کرنل سید حبیب اللہ شاہ صاحب کے ہاں عارضی طور پر مقیم تھا جو وہاں سپرنٹنڈنٹ سنٹرل جیل تھے تو حضور نے سندھ جاتے ہوئے وہاں ایک روز قیام فرمایا۔ آپ مجھے ڈرائنگ روم میں لے گئے اور ساتھ بیٹھنے کا اشارہ کیا اور فرمایا کہ دیکھو تم آئی۔ سی۔ ایس ہو اور تمہیں اعلیٰ طبقہ سے ملاقات کے بہت مواقع ملیں گے لیکن یہ بات تمہیں ہرگز غرباء اور کمزور لوگوں کی ہر طرح سے مدد کرنے سے کبھی باز نہ رکھے۔ آپ نے فرنیچر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ایسا فرنیچر جو غریبوں سے ملاقات میں روک بنے رکھنے کے قابل نہیں۔ جس طرح ہر غریب پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے بلا امتیاز کھلے رہتے تھے یہی وہ سنت ہے جسے اپنانا چاہئے۔ آپ کی آواز بھرائی ہوئی تھی۔ اور آپ کی آنکھیں پرنم تھیں۔ میری حالت کا اندازہ ہی لگایا جاسکتا ہے اسے بیان نہیں کیا جاسکتا۔ میں نے آپ کو کبھی اتنی جذباتی حالت میں نہیں دیکھا۔

دوسری چیز جس نے مجھ پر بہت گہرا تاثر چھوڑا وہ دین اور جماعت کی خدمت کا جذبہ تھا۔ میں آج بھی آپ کو فرش پر بیٹھے چاکلیٹ رنگ کا دھسہ اوڑھے کوئی درجن بھر موم بتیوں جو ایک بکس پر جلا کر رکھی ہوئی تھیں کے جلو میں پڑھتے یا لکھتے ہوئے دیکھتا ہوں۔ آپ کا گلا بہت حساس تھا اور مٹی کے تیل کے دھوئیں سے فوراً متاثر ہو جاتا تھا اور ان دنوں قادیان میں ابھی بجلی نہیں آئی تھی اس لئے موم بتیوں کا ہی استعمال فرماتے تھے۔ قادیان میں بجلی غالباً 1930ء کے اوائل میں آئی تھی اس سے پہلے کے عرصہ میں کام کا بوجھ زیادہ شدیدنوعیت کا ہوتا تھا۔ میں نے کئی مرتبہ جب جماعت کسی سخت دور سے گذر رہی ہوتی آپ کو ساری ساری رات بغیر ایک منٹ آرام کئے دیکھا ہے اور آپ کام کرتے کرتے اٹھ کر صبح کی نماز کے لئے تشریف لے جاتے۔ آپ کبھی کبھی لکھے ہوئے مسودات یا تحریریں حضرت ابا جان کو ترجمہ کی غرض سے اور بعض دفعہ ان کے بارہ میں رائے دریافت کرنے کے لئے بھجواتے اور ہم لڑکے انہیں ادھر سے ادھر لے جانے کی ڈیوٹی ادا کرتے۔

حضرت اماں جان کی تعظیم

آپ کو حضرت اماں جان سے بہت گہرا لگاؤ تھا۔ اپنے سفروں پر اکثر انہیں ساتھ لے جاتے۔ حضرت اماں جان آپ کو محبت سے ’’میاں‘‘ کہہ کر مخاطب ہوتیں۔ جب کبھی بھی حضور سفر کے دوران لیٹ ہوتے تو حضرت اماں جان بڑی گھبراہٹ اور بے چینی کا اظہار فرماتیں۔ میری بیوی بیان کرتی ہیں کہ ایک مرتبہ ایسی ہی حالت میں بڑی بے تابی سے حضرت اماں جان حضور کا کسی سفر سے واپسی کا انتظار کر رہی تھیں۔ جب آپ تشریف لے آئے تو اماں جان نے فرمایا ’’میں نے تجھے منع نہیں کیاہوا تھا کہ مغرب کے بعد دیر نہیں کرنی‘‘ حضرت صاحب نے فرمایا ’’جی اماں جان‘‘ پھرپوچھا ’’پھر کرے گا؟‘‘ حضور نے فرمایا ’’نہیں اماں جان‘‘ حضرت اماں جان نے حضور کے جسم کو ایک نرم چھڑی سے تنبیہہ کے رنگ میں چھوتے ہوئے فرمایا ’’آئندہ کبھی دیر سے مت آنا‘ تمہیں معلوم ہے میری جان پر بنی رہتی ہے۔‘‘ یہ ایک ماں کا فطری جذبہ تھا جس کا اظہار حضرت اماں جان نے فرمایا ورنہ وہ خود ہر دوسرے احمدی کی طرح حضور کی بڑی عزت فرماتیں۔ جب حضرت اماں جان کی ربوہ میں وفات ہوئی تو حضور کی خواہش تھی کہ انہیں اپنے خاوند حضرت مسیح موعود کے پہلو میں دفن کیا جائے۔ میں ان دنوں لاہور میں متعین تھا۔ حضور کا ارشاد موصول ہوا کہ اس سلسلہ میں انڈین ہائی کمشنر سے رابطہ کیا جائے۔ میری درخواست پر انڈین ہائی کمشنر نے دہلی سے رابطہ کیا اور بتایا کہ ہندوستان کی گورنمنٹ نے خاص کیس کے طور پر اس کی اجازت دے دی ہے۔ لیکن یہ شرط لگائی کہ اس غرض کے لئے بیس سے زائد عزیزوں یا دیگر اصحاب کو ویزے نہیں دیئے جا سکتے۔ حضرت مصلح موعودنے یہ پیشکش اس وجہ سے مسترد کر دی کہ حضرت اماں جان کی حیثیت کے پیش نظر کم از کم دس ہزار احمدی میت کے ساتھ جانے ضروری ہیں۔

ایک عظیم خطیب

حضور بہت بلند پایہ مقرر تھے۔ میں نے دنیا میں بہت سفر کیا ہے اور دنیا کے مشہور ترین لیڈروں کو سننے کا موقعہ ملا ہے مگر میں نے کسی کو بھی خطابت میں حضور کا پاسنگ بھی نہیں پایا۔ آپ کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ آپ اپنے خطاب سے پہاڑوں کو ہلا سکتے تھے۔ اس صداقت پر جماعت کے ہزاروں نہیں لاکھوں لوگ گواہ ہیں۔ آپ سامعین کو سحرانہ رنگ تک قابو میں رکھتے۔ ہجرت کے فوراً بعد آپ نے مختلف شہروں مں پاکستان کے مختلف مسائل اور ان کے حل پر لیکچر دیئے۔ اسلامیہ کالج کے پروفیسر نے جو میرے ایک دوست کے ساتھ بیٹھے تھے بے ساختہ کہا کہ ’’حضور کو پاکستان کا پرائم منسٹر ہونا چاہئے‘‘ اس سے قبل ’’اسلام میں اختلافات کا آغاز‘‘ کے موضوع پر لیکچر کے موقعہ پر اسلامیہ کالج کے ہسٹری کے پروفیسر نے آپ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے یہ الفاظ کہے ’’فاضل باپ کا فاضل بیٹا‘‘ اور کہا کہ میں اپنے آپ کو اسلامی تاریخ کا علم رکھنے والا تصور کرتا تھا لیکن آپ کا لیکچر سننے کے بعد احساس ہوا کہ میں تو بالکل طفل مکتب ہوں۔ جن دوستوں نے حضرت مسیح موعود کی مصلح موعود کے بارہ میں پیشگوئی پڑھی ہے ان کے لئے یہ ریمارکس کسی تعجب کا موجب نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت مصلح موعود کی پیدائش سے پہلے اس عظیم الشان ہستی کے بارہ میں جو پیشگوئی کی گئی ہے وہ تاریخ کے صفحات کی طرح ہے جسے کس شان اور عظمت کے ساتھ پورا ہوتا دیکھ سکتے ہیں۔

آپ کے التفاتات

میری ساری عمر حضور کے التفات کے سایہ تلے گذری۔ اعلیٰ تعلیم کی غرض سے یورپ کے سفر کے موقعہ پر حضور نے خط میں بہت سے قیمتی نصائح فرمائیں۔ ان میں سے ایک جس نے مجھ پر بہت گہرا اثر چھوڑا وہ تھی جس میں آپ نے قرآن مجید کی آیت ’’ان العزۃ للّٰہ جمیعا‘‘ کہ ’’تمام عزتوں کا مرجع اللہ تعالیٰ کی ذات ہے‘‘ کا ذکر فرمایا۔

انگلستان سے واپسی پر میں نے گورنمنٹ سروس اختیار کر لی اور میری شادی حضور کی صاحبزادی سے قرار پائی۔ حضور نے میری بیوی کو نصیحت فرمائی۔ کہ مظفر تو گورنمنٹ کا ملازم ہے مگر تم نہیں ہو۔ غریب اور مساکین سے ملو مگر کبھی کسی کی دنیاوی حیثیت کی وجہ سے انہیں ملنے مت جانا۔ جلد ہی انہیں اس امتحان سے گزرنا پڑا جب فنانشل کمشنر صاحب اپنی بیگم کے ہمراہ سرگودھا دورہ پر تشریف لائے۔ تمام افسران کی بیگمات نے فنانشل کمشنر صاحب کی بیگم کی ملاقات کے لئے ان کی رہائش گاہ پر حاضری دی اور باوجود ان کے اصرار کے میری بیوی نے جانے سے انکار کر دیا۔ بعد میں فنانشل کمشنر صاحب کی بیگم صاحبہ نے ڈپٹی کمشنر کی بیگم تک کو چھوڑتے ہوئے خاص طور پر میری بیگم کو علیحدہ چائے کی دعوت پر بلایا اور خاص طور پر پردہ کا اہتمام کیا گیا۔ سرگودھا کے افسران کے حلقہ میں اس پر بڑی حیرانگی کا اظہارکیا گیا اور بار بار یہ سوال کیا گیا کہ آیا میری بیوی کی فنانشل کمشنر کی بیگم سے پہلے سے کوئی شناسائی ہے جس پر میری بیوی نے انہیں بتایاکہ نہیں کوئی ایسی بات نہیں بلکہ وہ تو پہلی مرتبہ انہیں ملی ہیں۔ باوجود انتہائی مصروفیات کے حضور کچھ وقت بچوں اور عزیزوں کے لئے ضرور نکالتے۔ مجھے یاد ہے کہ حضور سردیوں کے ایام میں عشاء کی نماز کے بعد خاندان کے بچوں کو اکٹھا کرکے انہیں کہانیاں سناتے۔ یہ کہانیاں کسی کتاب سے نہ ہوتیں بلکہ آپ انہیں تشکیل دے کر آگے بڑھاتے چلے جاتے۔ ان کہانیوں میں نصائح پنہاں ہوتے۔ جب یہ سلسلہ ختم ہوتا تو بعض چھوٹے بچوں کو جو کہانی سنتے سنتے سو جاتے انہیں نوکر اٹھا کر گھر گھر چھوڑ آتے۔

تفریح کے لمحات

حضور شکار کا شوق رکھتے اور گھر کے افراد اور دوستوں کے ساتھ کھانا پکانے کے مقابلہ میں شرکت فرماتے۔ ایک موقعہ پر آپ نے جماعت کے دوستوں کی بہت بڑی تعداد کے ساتھ نہر کے ایک پل سے دوسرے پل تک تیرنے کے مقابلہ میں شرکت فرمائی۔ شرط یہ تھی کہ جس کا بھی پاؤں دانستہ یا دانستہ زمین کو چھو جائے وہ ہاتھ کھڑا کرکے مقابلہ سے علیحدہ ہوتا جائے۔ جب حد مقررہ کے دوسرے پل پر پہنچے تو آپ کے ساتھ چند دوست ہی باقی رہ گئے تھے۔ ان مواقع پر حضور ایک لمبی نیکر پہنا کرتے جو گھٹنوں تک آتی تھی۔

ایک عظیم منتظم

حضرت مصلح موعو د بڑے زیرک دور اندیش اور انتہائی قابل منتظم تھے۔ جماعت کی موجودہ حیثیت اور انتظامی ڈھانچہ آپ کی ہی جاری کردہ اصلاحات کا مرہون منت ہے۔ شوریٰ کا نظام تین ذیلی اداروں کا قیام، سندھ میں جماعت کے لئے ایک بڑی اراضی کا بندوبست جو حضور نے ایک خواب کی بنا پر خرید فرمائی تھی۔ تحریک جدید کا بیرون ملک دعوت الی اللہ اور احرار کی یلغار کے سامنے بند باندھنے کی غرض سے اجراء۔ وہ چند سکیمیں ہیں جو آپ کی دور اندیشی اور زیرک قیادت کی آئینہ دار ہیں۔ جماعت کے ممبران میں امدادی کام اور محنت کی عظمت قائم کرنے کی غرض سے آپ نے وقار عمل کے ایام باقاعدہ طور پر منانے کا طریق رائج کیا جس میں جماعت کے تمام ممبران بلا استثناء عہدہ و امارت اپنے شہروں میں گڑھوں کو پر کرنے، سڑکوں کی مرمت محلوں کی صفائی کے کاموں میں شرکت کرتے۔ مجھے اچھی طرح حضور کو خود مٹی سے بھری ہوئی ٹوکریاں اٹھا کر مقررہ جگہ پر ڈالتے ہوئے دیکھنا یاد ہے۔ آپ کی ذاتی مثال تمام احباب کے لئے مہمیز کا کام دیتی اور مشعل راہ بنتی۔

ایک بہادر انسان

حضور بڑے بہادر اور آہنی عزم کے مالک تھے۔ مجھے یاد ہے کہ جب آپ پر نماز کے دوران حملہ ہوا تو ڈی۔ آئی۔ جی پولیس نے اس سے پہلے کہ یہ خبر مشہور ہو جائے مجھے اطلاع کر دی اور یہ بھی بتایا کہ گو آپ کی حالت خطرہ سے باہر ہے مگر ربوہ سے تمام روابط منقطع کئے جا چکے ہیں اور پولیس کو ہر قسم کے حالات سے نبٹنے کے لئے الرٹ کر دیا گیا ہے۔ میں نے فوری طور پر ڈاکٹر امیر الدین سے جو ماہر سرجن تھے رابطہ کیا مگر وہ یونیورسٹی کے امتحانات کی وجہ سے مصروف تھے اس لئے پھر دوسرے ماہرسرجن ڈاکٹر ریاض قدیر کو لے کر میں رات گئے لاہور سے ربوہ پہنچ گیا۔ ڈاکٹر صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب نے دریں اثناء ابتدائی مرہم پٹی کر دی ہوئی تھی مگر ڈاکٹر صاحب نے دیکھا کہ حضور کا زخم والا حصہ پھولا ہوا ہے اور تشخیص کی کہ کوئی رگ کٹ گئی ہے۔ جس کی وجہ سے خون جمع ہو رہا ہے اس لئے فوری آپریشن کا فیصلہ کیا گیا جس کے لئے بے ہوش کرنا ضروری تھا مگر حضور نے انکار کیا کہ وہ بے ہوشی کی دوا نہیں لیں گے اور ہوش کی حالت میں ہی آپریشن کیا جائے۔ آپریشن کے دوران حضور نے کمال ہمت اور جرأت کا مظاہرہ فرمایا۔ اس زخم کی وجہ سے آپ کی صحت پر بہت برا اثر پڑا اور ایک لمبا عرصہ بیمار رہنے کے بعد جب آپ نے رحلت فرمائی تو ہم سب ربوہ میں موجود تھے۔ آپ کی یہ لمبی بیماری بھی اللہ تعالیٰ کی مشیت ہی دکھائی دیتی ہے کہ اس کی وجہ سے جماعت کو یہ صدمہ برداشت کرنے کی ہمت پیدا ہو گئی ورنہ آپ سے جماعت کو جو بے پناہ عقیدت اور لگاؤ تھا شاید وہ اس صدمہ سے بے حال ہو جاتی۔

حضور تمام زندگی قوم کی بہبود کے لئے سرگرم رہے اور یہ حقیقت اب تاریخ کا حصہ ہے۔ شدھی کی تحریک سے لے کر کشمیریوں کی آزادی کی تحریک تک اور ادھر پھر ہجرت سے پہلے ہندوؤں کے عزائم کی بے نقابی کرنا۔ جب ایک ہندو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں ایک گستاخانہ مضمون لکھا تو آپ نے اس کے خلاف بڑے زور سے آواز اٹھائی اور تحریک چلائی جس کے نتیجہ میں حکومت اس کے خلاف کارروائی کرنے پر مجبور ہو گئی۔ آپ کے کارہائے نمایاں میں سیرۃ النبیؐ اور یوم پیشوایان مذاہب کو شایان شان طریق پرمنانے کا پروگرام شامل ہے کہ غیر مناسب کے سامنے سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے پہلوؤں کو اجاگر کیا جائے تاکہ لاعلمی کی بنا پر کوئی آدمی ایسی بات نہ کرے جس سے اشتعال پیدا ہو اور پھر تمام پیشوایان مذاہب کے احترام کو قائم کرنے کی غرض سے ان کی سیرت پر تقاریر ہوں تاکہ مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان مفاہمت اور بھائی چارہ بڑھے اور کشیدگی دور ہو۔

مختصر یہ کہ آپ ایک عظیم اور یکتا لیڈر تھے۔ یہ تمام خوبیاں ایک انسان میں شاذ ہی اکٹھی ہوتی ہیں۔ آپ کی ذات ان تمام خوبیوں اور حسن کا مومنہ بولتا ثبوت تھی جس کا حضرت مسیح موعود کے چالیس روزہ چلہ کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا تھا۔ اس پیشگوئی کے شوکت سے انسان کے بدن پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے اور یہ پیشگوئی ہی ایک متلاشی کو ہدایت اور روشنی کی طرف لے جانے کے لئے کافی ہے۔ (الفضل 16 فروری 2000ء)