ایم ایم احمد ۔ شخصیت اور خدمات

فہرست مضامین

عہدساز اور خدمات سے معمور شخصیت

(پروفیسر راجا نصراللہ خان صاحب)

اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل واحسان سے حضرت صاحبزادہ صاحب کودین ودنیا کی نعمتوں، رفعتوں اور برکتوں سے نوازا تھا۔ آپ کی خاندانی سعادت اور خوش قسمتی کا اس سے بڑھ کر کیا ثبوت ہو گا کہ آپ حضرت مسیح موعود کے خوش بخت پوتے اور حضرت مصلح موعود کے سعادتمند داماد اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے لائق فرزند ارجمند تھے۔ آپ کی شادی حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی نواسی اور حضرت مصلح موعود کی صاحبزادی امتہ القیوم صاحبہ سے ہوئی۔ اس طرح بفضل اللہ تعالیٰ حضرت خلیفۃ المسیح الاول سے بھی آپ کا جسمانی رشتہ قائم ہوگیا۔

سلامتی وظفر کی علامت

آپ کی سعادت وسرفرازی کا ایک پر کیف پہلو یہ بھی ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ نے کئی کشوف ورویا میں آپ کا وجود دیکھا اور حضور نے آپ کے نام کے عمدہ معنوں (کامیاب وکامران) کی وجہ سے جماعت کو ظفر ونصر اور سلامتی وترقی کی الٰہی نوید سنائی۔ ایک موقع پر حضور نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 6نومبر 1984ء میں فرمایا: –

’’جن دنوں پاکستان کے حالات کی وجہ سے بعض راتیں شدید کرب میں گزریں تو صبح کے وقت اللہ تعالیٰ نے بڑی شوکت کے ساتھ الہاماً فرمایا ’’السلام علیکم‘‘ اور یہ آواز بڑی پیاری، روشن اور کھلی آواز تھی جو مرزا مظفر صاحب کی معلوم ہو رہی تھی یعنی یوں لگ رہا تھا جیسے انہوں نے میر ے کمرے کی طر ف آتے ہوئے باہر سے ہی السلام علیکم کہنا شروع کر دیا ہے اور داخل ہونے سے پہلے ہی السلام علیکم کہتے ہوئے کمرے میں آ رہے ہیں‘‘

اس رویا کی تعبیر کے بارہ میں حضور نے فرمایا: –

’’اور مجھے پتہ چلا کہ یہ تو خداتعالیٰ نے بشارت دی ہے اور اس میں نہ صرف یہ کہ السلام علیکم کا وعدہ دیا گیا ہے بلکہ ظفر کا وعدہ بھی ساتھ عطا فرمادیا ہے کیونکہ مظفر کی آواز میں السلام علیکم پہنچانا یہ ایک بہت بڑی اور دوہری خوشخبری ہے‘‘ (روزنامہ الفضل 26جولائی 2002ء)

قابل رشک ترقیات

خداتعالیٰ کے فضل وکرم سے آپ دنیاوی لحاظ سے بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے کرنے کے بعد آپ نے برطانیہ کی شہرہ آفاق یونیورسٹی (Oxford) آکسفورڈ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ وہیں آپ نے آئی، سی، ایس (انڈین سول سروس) کا امتحان بھی پاس کرلیا اور اس طرح ملازمت کا آغاز قابل رشک اور قابل فخر منصب سے کیا۔ پاکستان کے سیکرٹری خزانہ اور ایڈیشنل چیف سیکرٹری بن گئے ملک امیر محمد خان، جناب ایم ایم احمد کو اس وقت سے جانتے تھے جب پاکستان کے شروع کے سالوں میں آپ میانوالی کے ڈپٹی کمشنر تھے۔ وہ اس زمانہ سے آپ کی شخصیت اور اصول پرستی سے بہت متاثر تھے۔ پھر وہ آپ کی صلاحیتوں اور پروقار وبااصول شخصیت کے اور بھی مداح اور قدردان ہو گئے۔

صدر ایوب خان کی قدر دانی

صدر ایوب خان باصلاحیت، قابل اور اپنے میدان میں ماہر لوگوں کی قدر دانی کرتے تھے۔ اسی لئے 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں بلا امتیاز عقیدہ فوجی افسران کو ان کی دلیری اور کارکردگی کی مناسبت سے تمغے اور نشان عطا کئے گئے۔ ا سی طرح ایوب خان نے پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام اور جناب ایم ایم احمد کی بھی خوب قدردانی کی اور ان حضرات نے بھی پاکستان کی عظیم اور بے مثال خدمات انجام دینے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی۔ 60ء کی دھائی کے ابتدائی سالوں میں صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کو صوبائی سطح سے ترقی دے کرمرکزی سیکرٹری تجارت اور پھر سیکرٹری وزارت خزانہ مقرر کیا گیا۔ ا للہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے آپ اپنے فرائض منصبی میں اس قدر کامیاب اور مثالی شخصیت ثابت ہوئے کہ صدر ایوب خان جو خود منصوبہ بندی کمیشن کے چئیرمین تھے، انہوں نے صاحبزادہ صاحب کو ڈپٹی چئیرمین منصوبہ بندی کمیشن بنا دیا۔ اس طرح آپ نے ساٹھ کے عشرے میں پاکستان کو تجارتی اور معاشی میدان اور پنج سالہ منصوبوں کے لحاظ سے ترقی کی ایسی شاندار اور مستحکم راہوں پر گامزن کر دیا کہ اگر وہ اقدامات اور رفتار ان کے 1972ء میں ورلڈ بینک سے منسلک ہو جانے کے بعد بھی قائم رکھی جاتی تو یقینا آج پاکستان ترقی کی دو ڑ میں تیسری دنیا کے عظیم ترین ممالک میں شمار ہو تا۔

معاشی ترقی کا دور

ساٹھ کی دہائی میں جب جناب ایم ایم احمد صاحب ترقی کی مختلف منازل میں صدر ایوب خان کے دور حکومت میں وطن عزیز کی معاشی وتجارتی ترقی اور منصوبہ بندی کے پروگرام سے متعلق مرکزی کلیدی اور وقیع منصب پر فائز تھے ان دنوں پاکستان کس مقام پر سرفراز وسر بلند تھا اس بارے میں سرتاج عزیز سابق وزیر خزانہ اپنے انٹرویو مطبوعہ نوائے وقت سنڈے میگزین‘‘ مورخہ 2جون 2002ء میں اظہار کرتے ہیں۔ سرتاج عزیز صاحب ساٹھ کی دہائی کے تقریباً آخر سے لے کر 1971ء تک جناب ایم ایم احمد صاحب کے ماتحت کام کرتے رہے ہیں۔ اسی طرح سابق وزیر خزانہ محبوب الحق مرحوم بھی اس زمانہ میں ایم ایم احمد صاحب کے ماتحت منصوبہ بندی کمیشن میں چیف اکانومسٹ کے عہدے پر فائز تھے۔

’’سرکاری عہدے پر میرا سب سے زیادہ وقت یعنی 1961ء تا1971ء تک پلاننگ کمیشن میں گزرا۔ ایوب خان چئیرمین تھے۔ ’’1960ء کاعشرہ ہماری قومی پیداوار کے اعتبار سے بہترین وقت ہے جب سالانہ پیداوار میں ساڑھے چھ سے سات فیصد تک اضافہ ہوتا تھا۔ اس وقت پاکستان کی صنعتی پیداواری ترقی بلند ترین سطح پر تھی یعنی 12فیصد، ہماری سرمایہ کاری میں 14فیصد کا اضافہ ہوا اور افراط زر کی صرف دو فیصد کی شرح تھی۔ 1965ء کی جنگ کے باوجود ہماری کارکردگی قابل تحسین تھی‘‘۔ (نوائے وقت سنڈے میگزین مورخہ2جون 2002ء) (ب) پاکستان کے ایک اور ماہر معاشیات جناب ایم آفتاب جو ’’معیشی افق‘‘ کے زیر عنوان ماضی قریب تک ’نوائے وقت‘ میں باقاعدگی سے ٹھو س معاشی مضامین لکھتے رہے ہیں اپنے مضمون مطبوعہ ’نوائے وقت‘ 10؍اگست 1997ء میں تحریر کرتے ہیں: –

’’1960ء کے عشرے میں جنوبی کوریا کے افسران اور قومی منصوبہ بندی کے کام سے منسلک افراد پاکستان کے منصوبہ بندی کمیشن اور دیگراداروں میں تربیت حاصل کرنے آتے تھے، میں جب کوریا گیااور کئی حکومتی اور صنعتی ادارے دیکھنے کا اتفاق ہوا تو میں نے دریافت کیا کہ اتنے اچھے کاموں، پیداوار اور پیداواریت کی ابتداء انہوں نے کیسے کی۔ جواب تھا ’’ہم نے پاکستان میں یہ کام سیکھا‘‘ کیا ملائشیا او رکوریا کی ان دو مثالوں سے آپ کو اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ ہم ترقی معکوس کر رہے ہیں، زمانہ اور خود ہمارے سابقہ شاگرد آگے بڑھ رہے ہیں اور ہم پیچھے کی طرف جا کر روبہ زوال ہیں۔ یہ بہت عبرت کا مقام ہے‘‘۔ (روزنامہ’نوائے وقت‘ مورخہ 10؍اگست 97ء)

بطور اقتصادی مشیر گرانقدر خدمات

اللہ تعالیٰ نے حضرت صاحبزادہ صاحب کو ترقی پہ ترقی عطا فرمائی۔ صدر یحییٰ خان کے زمانہ میں آپ صدر کے اقتصادی مشیر مقرر ہوئے۔ آپ کا منصب وفاقی وزیر کے برابر تھا۔ اس حیثیت میں آپ کو ملکی مفادات میں کئی اہم فیصلے اور اقدامات کرنے کا موقع ملا۔ بدقسمتی سے پاکستان کا وہ دور مشرقی پاکستان کے حوالے سے سیاسی، معاشی اور داخلی وخارجی دباؤ کے لحاظ سے ایک پرآشوب دور بن گیا۔ ملک میں بغاوت اور خانہ جنگی کی صورت پیدا ہو گئی تھی۔ مشرقی پاکستان میں لوٹ کھسوٹ او ر قتل وغارت کا بازار گرم تھا۔ وہاں بینکوں سے ساٹھ کروڑ سے زائد کی رقوم لوٹ لی گئی تھیں۔ ایسے حالات میں زائد فوج کی تعیناتی اور ان کے اخراجات کا الگ بوجھ تھا۔ ان دگرگوں حالات میں جناب ایم ایم احمدنے دو زبردست کام انجام دئیے۔

بڑے کرنسی نوٹوں کی منسوخی

جب مشرقی پاکستان کے بینکوں سے فسادیوں اور ملک دشمن عناصر نے کروڑوں روپے لوٹ لئے تو صدر کے اقتصادی مشیر جناب ایم ایم احمدنے مالیات کے شعبہ سے تعلق رکھنے والے دوسرے زعماء کے ساتھ مل کر ایسی منصوبہ بندی کی کہ دشمنان وطن کا منصوبہ دھرے کا دھرا رہ گیا۔ اس بارے میں روزنامہ ’’پاکستان ٹائمز‘‘ انگریزی نے اپنی 9جون 1971ء کی اشاعت میں کرنسی کی تنسیخ کے زیر عنوان اداریے میں لکھا: –

’’گزشتہ ماہ صدر مملکت کے اس انکشاف کے بعد کہ تقریباً ساٹھ کروڑ روپے یا اس سے بھی زائد مشرقی پاکستان کے بینکوں سے لوٹ لئے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا کہ بڑے کرنسی نوٹوں کو منسوخ کر دیا جائے چنانچہ اس بات کو بآسانی سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ اقدام معیشت کی خاطر لازم تھا‘‘۔

٭روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ نے ایک اداریہ بعنوان ’’منسوخ نوٹ اور کالاروپیہ‘‘ تحریر کیا: –

’’پانچ سو اور ایک سو روپے کی مالیت کے نوٹوں کی تنسیخ کا بنیادی مقصد ملک وقوم کو مشرقی پاکستان کے بینکوں سے لوٹی ہوئی اس کرنسی کے منفی اثرات سے محفوظ کرنا تھا جو نام نہاد بنگلہ دیش کے پجاریوں نے مغربی بنگال پہنچا دی تھی۔ اور جو مغربی پاکستان سمگل ہونے لگی تھی۔ یہ مقصد کرنسی نوٹوں کی تنسیخ کے اعلان کے ساتھ ہی حاصل ہو گیا تھا۔ اس اقدام کا ملکی معیشت پر بھی خوشگوار اثر پڑا… اس اقدام سے افراط زر کو روکنے میں مدد ملی ہے اور ہم ایک بار پھر کرنسی کی قیمت کم کرنے کے جاں گسل مرحلہ سے بچ گئے ہیں‘‘۔ (’’نوائے وقت‘‘ مورخہ 18 جون 1971ء)

1971-72ء کا شاندار بجٹ

متذکرہ بالا دگرگوں حالات کے دوران سال 1971-72ء کے بجٹ کا مرحلہ بھی درپیش تھا۔ عوام وخواص ان تمام حالات سے باخبر، نئے بجٹ میں متوقع نئے ٹیکسوں کے بوجھ کے خوف سے دو چار تھے لیکن جناب ایم ایم احمد ان نامساعد اور کٹھن ترین حالات کے باوجود اپنی خداداد صلاحیتوں اور دن رات کی محنت و لگن سے ایک ایسا مثالی بجٹ تیار کرنے میں کامیاب ہو گئے جسے بجا طور پر تاریخ پاکستان کا شاہکار بجٹ قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس دور کے سب اخبارات اور اہم شخصیات نے عوام کو ٹیکسوں سے چھوٹ حاصل ہونے کی وجہ سے اس بجٹ کو بے حد سراہا اور اہم شخصیات نے جناب ایم ایم احمد کی محنت، مہارت اور خدمت کی بے حد تعریف کی۔ اس بار ے میں چند حوالے پیش ہیں: –

٭’’پاکستان ٹائمز‘‘(لاہور) مورخہ27جون 1971ء کی شہ سرخی تھی ’’خوداعتمادی اور کفایت شعاری کا بجٹ‘‘ ’پاکستان ٹائمز‘ کی اسی اشاعت کی دوسری خبر کی سرخی تھی’’بجٹ تجاویز کے حقیقت پسندانہ ہونے کا خیر مقدم کیا گیا‘‘۔ تفصیل میں درج تھا: –

’’ہفتے کے روز جو بجٹ پیش کیا گیا اس کا لاہور شہر میں بڑے اطمینان کے ساتھ خیر مقدم کیا گیا۔ کیونکہ نئے ٹیکسوں کے متعلق جو تجاویز رکھی گئی ہیں ان کا عام آدمی پر زیادہ بوجھ نہیں پڑے گا‘‘۔

٭ روزنامہ ’’مشرق‘‘ 28جون 1971ء کا اداریہ زیر عنوان ’’حقیقت پسندانہ بجٹ‘‘: –

’’صدر کے اقتصادی مشیر ایم ایم احمد کے مرکزی بجٹ کو مجموعی طور پر متوازن، حقیقت پسندانہ اور ایک خود دار قوم کے شایان شان قرار دیا جا سکتا ہے‘‘۔

آگے چل کر لکھا ہے: –

’’عام آدمی پر ٹیکسوں کا بار بہت کم ڈالا گیا ہے اور ترقیاتی حکمت عملی میں مختلف علاقوں کے عوام کی خواہشات کا سنجیدگی سے جائزہ لیا گیا ہے تا کہ معاشرتی انصاف کے پروگرام کا آغاز ہو سکے‘‘

٭ روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ نے اپنی 27جون 1971ء کی اشاعت میں ’’حقیقت پسندانہ بجٹ‘‘ کے عنوان سے اداریے میں لکھا: –

’’اس سال مشرق پاکستان میں بغاوت وشورش کے باعث ملک وملت جس اقتصادی زبوں حالی سے دو چار ہو گئے تھے اس کے پیش نظر نئے ٹیکسوں کا نفاذ یا مروجہ ٹیکسوں میں اضافہ کا امکان کچھ ناگزیر سا نظر آنے لگا تھا اور کم وبیش ہر شعبہ زندگی کے لوگ اپنے ذہنوں کو ممکنہ ٹیکسوں کامزید بوجھ قبول کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن یہ بڑے اطمینان کی بات ہے کہ نیا بجٹ تیار کرنے والوں نے خاص حقیقت پسندی کا مظاہرہ کیا ہے اور صرف ایسے لوگوں پر ٹیکس عائد کئے ہیں جو واقعی ٹیکس ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ نئے میزانیہ کا یہ پہلو بھی بڑا خوشگوار ہے کہ اس میں ہو شربا گرانی کی چکی میں پسنے والے عوام کو کچھ سہولتیں دینے کی غرض سے اقدامات کئے گئے ہیں‘‘۔

٭ ’’نوائے وقت‘‘ مورخہ 29جون 1971ء میں شائع ہونے والی اپنی ڈائری میں ملک کے کہنہ مشق صحافی جناب م، ش لکھتے ہیں: –

’’صدر کے اقتصادی مشیر جناب ایم ایم احمدنے راولپنڈی میں اپنی بجٹ تقریر کا آغاز بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر کیا لیکن پاکستان کے اخبارات اس کا ذکر گول کر گئے۔ نیز بی بی سی نے جناب ایم ایم احمد کی تقریر کے صرف اس حصے کو نشر کیا جس میں پاکستان کی مالی مشکلات او رسیاسی پیچیدگیوں کا ذکر تھا لیکن یہ بتانے کی زحمت گوارانہ کی کہ ان مالی مشکلات کے باوجود بجٹ میں عوام کی ضروریات زندگی پر مزید ٹیکسوں کا بار نہیں ڈالا گیا او رمشروط غیر ملکی امداد پر غور کرنے سے صاف انکار کر دیا گیا‘‘

آگے چل کر م ش لکھتے ہیں: –

’’میرے خیال میں جناب ایم ایم احمد پہلے فنانشل ایکسپرٹ ہیں جنہوں نے اپنی بجٹ تقریر میں پاکستان کے ایک نظریاتی مملکت ہونے کا واشگاف الفاظ میں اعلان کیا۔ اور اس کے ساتھ یہ بھی کہا کہ پاکستان کے قیام میں اللہ تعالیٰ کی مشیت کو دخل حاصل تھا۔ انہوں نے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کے ساتھ اس جذبہ کو از سر نو فروغ دیں جو قیام پاکستان کاباعث ہوا تھا‘‘

’’جناب ایم ایم احمدنے ایک غیرت مند محب الوطن پاکستانی کی حیثیت سے اس چیلنج کو بھی قبول کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے جو بیرونی ملکوں کی طرف سے مشروط مالی امداد کی شکل میں پاکستان کے سر پر تلوار کی طرح لٹک رہا ہے…… ایم ایم احمد کا یہ اعلان پاکستان کے دشمنوں کے ناپاک منصوبوں پر بم بن کر گرے گا‘‘

٭ 29جون 1971ء کے ’نوائے وقت‘ کے آخری صفحہ پر حکیم محمد سعید (چیئر مین ہمدرد فاؤنڈیشن) کا ایک بیان شائع ہوا جس کا عنوان تھا’’نیا بجٹ فی الواقعہ حقیقت پسندانہ ہے‘‘۔

٭’’نوائے وقت‘‘ مورخہ 30 جون 1971ء کے پہلے صفحہ پر زیر عنوان ’’حکومت کے فیصلوں کا خیر مقدم‘‘ درج ہے۔

’’صاحبزادہ فیض الحسن صدر جمعیت علماء پاکستان نے نئے بجٹ کا پر جوش خیر مقدم کیااور کہا کہ حکومت نے مشروط سیاسی امداد مسترد کر کے ایک خود دار اور غیرت مند قوم کی ترجمانی کی ہے۔ اب قوم پر بھی فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ کفایت اور بچت کی مہم چلا کر خود کفیل ہونے کی کوشش کرے‘‘۔

٭’’ڈان‘‘ (مورخہ 28جون 1971ء) میں بجٹ کے متعلق مختلف شخصیات کا اظہار خیال اسلام آباد یونیورسٹی کے شعبہ اقتصادیات کے سینئر ریسرچ فیلو ڈاکٹر ایس، اے، وینس نے کہا ہے کہ: –

’’بجٹ کا اعلان ہو جانے کے بعد ماضی کے برعکس عام استعمال کی قیمتوں میں بڑھوتری کا کوئی خدشہ نہیں‘‘۔

راولپنڈی کے ایوان صنعت وتجارت کے صدر شیخ خورشید احمدنے کہا ہے: –

’’یہ ایک حقیقت پسندانہ بجٹ ہے۔ جس کا مطمح نظر ایک عادلانہ سوسائٹی ہے۔ اس کا مجموعی طو رپر یہ اثر نکلے گا کہ قیمتوں میں اضافہ نہیں ہوگا۔ جیسا کہ ڈر تھا سوائے چند ایک اشیاء کے جیسا کہ تمباکو اور سوتی مصنوعات‘‘۔ لاہور میں گورنمنٹ پاکستان کے سابق اقتصادی مشیر ڈاکٹر انور اقبال قریشی نے کہا: –

یہ بجٹ زبردست تعمیری غوروفکر کا نتیجہ ہے۔ یہ رسمی قسم کابجٹ نہیں …… انہوں نے اس خیال کا اظہار کیا کہ سب حالات کو پیش نظر رکھا جائے تو مسٹر ایم ایم احمدنے عمدہ کام کیا ہے۔ بجٹ کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ مختلف پالیسیوں کو صحیح طور پر بروئے کار لایا جائے‘‘ (ترجمہ ’’ڈان‘‘ (انگریزی) مورخہ28جون 1971ء)

ورلڈ بینک سے وابستگی

1972ء میں حضرت صاحبزادہ صاحب بھٹو دور میں ورلڈ بینک کے ساتھ بحیثیت ایگزیکٹو ڈائریکٹر وابستہ ہو کر امریکہ چلے گئے۔ کچھ عرصہ بعد آپ IMF انٹرنیشنل مالیاتی فنڈ سے منسلک ہو گئے اور 1984ء میں ریٹائرہو کر امریکہ میں ہی رہائش پذیر ہو گئے۔ 1989ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جماعت احمدیہ امریکہ کا امیر مقرر فرمایا۔ آپ تادم آخر اس منصب جلیلہ پر فائز رہے۔

عظیم لوگوں کے عظیم دل

انگریزی زبان میں ایک خوبصورت محاورہ ہے

Handsome is that Handsome Does.

یعنی درحقیقت عظیم اور حسین تو وہ شخص ہے جس کے کام عظیم اور حسین ہوتے ہیں۔ خاکسار کو محترم میاں صاحب سے ملاقات کرنے کاکبھی موقع نہیں ملا۔ فقط راولپنڈی کی بیت النور میں ایک عرصہ تک جمعہ کے روز ان کی ایک جھلک نظر آ جاتی تھی۔ اور ستمبر 1999ء کا ایک دن میرے لئے اس وقت دلی خوشی اور حیرت لے کر آیا جب مجھے ڈاک سے محترم میاں صاحب کا انگریزی میں ٹائپ شدہ گرامی نامہ موصول ہوا۔ آپ نے لکھا: –

’’میں یہ خط رونامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ اور ’ہفت روزہ لاہور‘ میں بڑی تعداد میں شائع ہونے والے آپ کے مضامین کی قدر دانی کے اظہار کے طور پر تحریر کر رہا ہوں۔ اس سلسلہ میں مجھے الفضل کی 12مئی 1999ء کی اشاعت میں آپ کا حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کے متعلق مضمون یاد آ رہا ہے۔ یہ بھی میرے علم میں ہے کہ ان کے متعلق آپ کا ایک اور مضمون الفضل کی ایک حالیہ اشاعت مورخہ 13؍اگست 1999ء میں شامل ہے۔

یہ جماعت کی بہت بڑی خدمت ہے اور مجھے یقین ہے کہ آپ مضمون نگاری کی اس صلاحیت کو جماعت کی خدمت میں لگائے رکھیں گے۔

آپ کا مخلص ایم ایم احمد‘‘

ان کی طرف سے پذیرائی اور حوصلہ افزائی کا جہاں عجب لطف محسوس ہوتا ہے وہاں اس بات پر خوشگوار حیرت بھی ہوئی کہ حضرت میاں صاحب کس توجہ اور شوق سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ اور ’’لاہور‘‘ وغیرہ کا مطالعہ فرماتے تھے نیزیہ کہ مجھ جیسا عاجز شخص بھی جب جماعت کی کوئی حقیر سی خدمت انجام دیتا ہے تو آپ کی جانب سے کس قدر وسعت قلب سے اس کے لئے پذیرائی اور پسندیدگی کا اظہار ہوتا ہے۔

خاکسار نے حضرت میاں صاحب کی خدمت میں اپنی کتاب ’’تعمیر وترقی پاکستان اور جماعت احمدیہ‘‘ بطور تحفہ پیش کی اور بارہ عدد کاپیاں روانہ کیں اس تحفہ کے جواب میں حضرت میاں صاحب نے جو گرامی نامہ تحریر فرمایا اس کا ترجمہ پیش خدمت ہے: –

’’میں یہ مکتوب اس خط کے شکریے میں لکھ رہا ہوں جس کے ساتھ آپ نے مجھے اپنی کتاب (تعمیر وترقی پاکستان اور جماعت احمدیہ) کی بارہ عدد کاپیاں بھجوائی ہیں۔ میرے نزدیک یہ کتاب بہت مفید ہے۔ خاص طور پر غیر ازجماعت لوگوں اور ہماری جماعت کے معترضین کے لئے! میں لازماً اس کتاب کو لوگوں میں مفت تقسیم کرنے کے کام لاؤں گا۔ ہمیں مفت تقسیم کرنے نیز فروخت کرنے کی غرض سے اس کتاب کی سو کاپیوں کا آرڈر دینا ہے۔ مہربانی کر کے اس کی لاگت اور امریکہ تک ترسیل کے اخراجات کے بارہ میں مطلع کریں۔ دعاؤں میں یاد رکھیں۔ آپ کا مخلص۔ ایم۔ ایم۔ احمد‘‘

تاریخی انٹرویو اور جذبہ حب الوطنی

کہنہ مشق صحافی وادیب زاہد ملک صاحب نے 1996ء کے قریباً آخر میں جناب ایم ایم احمد سے ایک تفصیلی انٹرویو لیا جسے انہوں نے ہفت روزہ ’’حرمت‘‘ کی اشاعت برائے 27دسمبر 1996تا 2جنوری 1997ء میں شائع کیا۔ اس میں محترم میاں صاحب نے زاہد ملک کے مختلف النوع سوالوں کے بڑے موثر اور سیر حاصل جوابات بیان فرمائے حب الوطنی کے بارہ میں حضرت صاحبزادہ صاحب فرماتے ہیں: –

’’جہاں تک ہماری جماعت کا تعلق ہے یہ اپنی خوشی سے باہر نہیں آئی۔ اسے ملک چھوڑنے پر مجبور کیا گیا ہے لیکن اس سب کے باوجود ہمیں جب بھی کوئی موقع ملتا ہے ہم پاکستان کے لئے ضرور کام کرتے ہیں اور جو کچھ ممکن ہوتا ہے وہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں …… ہماری تعلیم ہماری رگوں میں اور ہمارے خون میں سرایت کر چکی ہے وہ یہ کہ ملک کے ساتھ ہر صورت میں وفاداری کو نبھانا ہے‘‘

آگے چل کر فرماتے ہیں: –

’’پریسلر ترمیم کے خلاف جو براؤن ترمیم کے لئے کوشش ہوئی تھی تو اس وقت مجھے بھی ایمبیسی نے کہا کہ میں بھی اس سلسلے میں کوشش کروں۔ تو میں نے اس وقت بڑی بھرپور کوشش کی تھی یہاں تک کہ پاکستانی کمیونٹی اور تمام متعلقہ حلقوں میں خاصی دھاک بیٹھی اور حیرت سے لوگوں نے کہا ہم تو سمجھتے تھے کہ یہ ملک کے خلاف ہیں لیکن انہوں نے تو ملک کے لئے بڑا کام کیا ہے اور جان کی بازی لگا کے جدوجہد کی ہے‘‘

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے آپ نے فرمایا:

’’مجھے یاد ہے ایک دفعہ فیلڈ مارشل ایوب خان مجھے کہنے لگے کہ اگر کوئی شخص چیخ چیخ کر سو دفعہ کہے کہ یہ جو احمدی ہیں یہ ملک کے خلاف ہیں تو میں اس پر ایک سیکنڈ کے لئے بھی یقین نہ کروں گا۔ کہنے لگے کہ 1965ء کی جنگ کے دوران میں نے ایک بہت ہی خطرناک مشن پر بھیجنے کے لئے د س آدمیوں کو بلایا اور کہا کہ جس مشن پر آپ کو بھیجا جا رہا ہے وہ اتنا خطرناک ہے کہ اس میں زندہ بچ کر واپس آنے کا امکان صرف دس فیصد ہے جب کہ 90 فیصد امکان یہی ہے کہ وہ واپس نہیں آئیں گے تو پہلا آدمی جس نے اثبات میں فوراً ہاتھ اٹھایا وہ احمدی تھا۔

س: -کون صاحب تھے وہ؟

ج: – منیب نام تھا اس شخص کا۔ وہ پائلٹ تھا۔ تو کہنے لگے کہ ایسی صورت حال میں، میں کیسے یقین کر لوں کہ احمدی ملک کے دشمن ہیں‘‘۔

آپ نے حب الوطنی کے جذبہ پر انٹرویو کے دوران فرمایا: –

’’ہماری مخالفت گورنمنٹ کی پالیسی سے ہے لیکن ہماری مخالفت کا کوئی بھی اور ذرا سا بھی حصہ پاکستان کے خلاف نہیں ہے۔ ہم ملک کے اتنے ہی وفادار ہیں جتنا کسی بھی محب وطن کو ہونا چاہئے۔ ہم ملک کے مفاد کے لئے ہمیشہ سے کام کرتے آئے ہیں اور جہاں بھی ضرورت پڑے گی ہم کا م کر یں گے‘‘۔ (ہفت روزہ ’حرمت‘ 27 دسمبر 1996ء)

حضرت صاحبزادہ صاحب مظفر ومنصور زندگی گزار کر 89 برس کی عمر میں اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو گئے۔ احمدیت کے ایک اور منفرد بطل جلیل حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان اور حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد بہشتی مقبرہ کے قطعہ خاص میں ساتھ ساتھ آسودہ خواب ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان دونوں عالی نصب بزرگوں کے درجات ہر آن بلند فرماتا رہے۔

جناب ثاقب صاحب نے کیا خوب کہا ہے: –

نشیب پر نہیں اپنی بلندیوں کی اساس

ازل کے دن ہی سے گردوں وقار ہیں ہم لوگ

(الفضل 9اکتوبر 2002ء)