ایم ایم احمد ۔ شخصیت اور خدمات

فہرست مضامین

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی زندگی کے بعض نمایاں شمائل کا ذکر اور آخری علالت کے حالات

آخری علالت

ابا جان کی آخری بیماری کا آغاز جون 1963ء میں ہوا۔ جب ربوہ میں آپ نے نگران بورڈ کے ایک اجلاس کی صدارت فرمائی۔ طبیعت پہلے سے خراب تھی لیکن آپ نے ہمیشہ دین کے کام کو ہر چیز پر ترجیح دی اور مقدم رکھا اور اسی جذبہ سے اس اجلاس میں شرکت کی اور باوجودناسازی طبع اور کمزوری کے کئی گھنٹے تک اجلاس کو جاری رکھا تا اکٹھا ہوا ہوا کام ختم ہو جائے۔ اصل میں چند سال ہوئے ابا جان کو Heat Stroke ہو گیا تھا۔ اور اس کے بعد ہر موسم گرما میں ربوہ کی شدید گرمی میں یہ تکلیف کسی نہ کسی رنگ میں ابھر آتی تھی۔ اس اجلاس میں شرکت کے بعد پھر آپ کی طبیعت پوری طرح وفات تک نہ سنبھلی۔

جون کے مہینہ میں مَیں اکثر ٹیلیفون پر طبیعت پوچھتا رہتا تھا۔ اس خیال سے کہ مجھے تکلیف نہ ہو یا میرے کام میں کوئی رکاوٹ نہ ہو یہی فرماتے تھے کہ طبیعت اچھی تو نہیں لیکن گھبراؤ نہ۔ اس کے باوجود احتیاطاً میں نے لاہور سے ڈاکٹروں کا ربوہ جانے کا انتظام کیا Examination میں پہلی بیماریوں یعنی دل کی تکلیف۔ ذیابیطس اور بلڈ پریشر کے علاوہ ڈاکٹروں نے یہ بھی تشخیص کی کہ Prostate کی تکلیف پیدا ہوتی معلوم دیتی ہے۔ جس کا علاج اپریشن ہے۔ جو ابا جان کی باقی بیماریوں اور کمزوری کے مدنظر مشکل تھا۔ یہ تشخیص مزید فکر کا باعث ہوئی اور یہی فیصلہ ہوا کہ مہینے کے آخر میں آپ لاہور تشریف لے جائیں تاعلاج کے بارہ میں مشورہ ہو سکے۔ اور اس کے مطابق انتظام کیا جاسکے۔

چنانچہ جون کے آخر میں آپ لاہور تشریف لے گئے۔ جہاں ہسپتال میں ایک کمرہ کا انتظام بھی کر لیا تھا۔ لاہور میں بعض Test لئے گئے اور ڈاکٹری مشورہ سے یہ طے پایا کہ فی الحال اپریشن کی کوئی فوری ضرورت نہیں اور اس تکلیف میں باقی علاج سے افاقہ بھی ہوا۔ لیکن طبیعت پوری طرح نہ سنبھلی۔

اپنی وفات کے متعلق خوابیں

چند ماہ سے ابا جان کو متعدد منذر خوابیں اپنی وفات کے متعلق آرہی تھیں۔ جن سے ان کی طبیعت میں یہ خیال راسخ ہو گیا تھا کہ ان کی وفات کا وقت قریب ہے۔ اس کا پہلا اشارہ مجھے عید کے موقعہ پر شروع مئی میں کیا۔ جب کہ میں واپس راولپنڈی کے لئے رخصت ہو رہا تھا۔ فرمانے لگے کہ

’’مجھے کچھ عرصہ سے بعض منذر خوابیں آرہی ہیں۔ تم بھی دعا کرنا‘‘ اور حسب معمول رخصت کرتے وقت فرمایا ’’اللہ حافظ و ناصر ہو‘‘

یہ خوابوں کا سلسلہ لاہور میں بھی جاری رہا۔ اور میرے علاوہ دوسرے ملنے والوں سے بھی ان کا ذکر کیا۔ گو تفصیل نہیں بتلاتے تھے نہ ہمیں اس کے دریافت کی ہمت پڑتی تھی۔ میں نے ڈاکٹروں سے مشورہ کیا۔ ان کی رائے یہ تھی کہ اباجان کی بیماری کی تشویشناک صورت دل اور بلڈ پریشرکی طرف سے ہو سکتی ہے۔ اور یہ دونوں بیماریاں خدا کے فضل سے کنٹرول میں تھیں۔ چنانچہ ایک مرتبہ میں نے عرض بھی کیا کہ ڈاکٹر تسلی دلاتے ہیں اور کہتے ہیں اصل بیماریاں کنٹرول میں ہیں اور باقی شدید بے چینی اور بے خوابی کی تکالیف عارضی ہیں۔ جو انشاء اللہ جلد ٹھیک ہو جائیں گی۔ میرے یہ کہنے پر فرمایا: –

’’ڈاکٹروں کی رائے پر نہ جانا‘‘

ڈاکٹری مشورہ کے ماتحت یہ فیصلہ کیا گیا کہ کچھ روز تبدیلی آب و ہوا کے لئے ابا جان گھوڑا گلی تشریف لے جائیں جہاں کا موسم بھی خوشگوار ہوگا اور جس کی بلندی بھی اتنی نہیں جو کہ دل کے مریض کے لئے خطرہ کا باعث ہو۔ چنانچہ وسط اگست میں آپ لاہور سے روانہ ہو کر راستہ میں جہلم کچھ وقت قیام فرما کر شام کے قریب ہمارے ہاں قیام فرمایا۔ اگلے روز صبح گھوڑا گلی تشریف لے گئے۔ اس سفر میں ڈاکٹر یعقوب صاحب اور میرے چھوٹے بھائی عزیزم منیر احمد صاحب ساتھ تھے۔ ہفتہ کے روز ہم بھی چلے گئے۔ اور ڈاکٹر صاحب دو تین دن قیام فرمانے کے بعد میرے ساتھ ہی واپس آگئے۔ ڈاکٹر کا انتظام ساملی سینی ٹوریم اور مری سے کر لیا تھا کہ ضرورت کے وقت وہاں سے آسکیں۔ گھوڑا گلی میں پہلے دو تین روز آپ کی طبیعت خاصی اچھی ہو گئی لیکن وہاں بھی پہلے کی طرح اپنے متعلق منذر خواب دیکھی اور اسی وجہ سے مقررہ پروگرام سے پہلے لاہور تشریف لے گئے۔

لاہور میں واپسی پر بھی منذر خوابوں کا سلسلہ جاری رہا۔ چنانچہ ایک مرتبہ 24۔ اگست کے قریب لاہور گیا تو فرمانے لگے کہ ’’اب تو چل چلاؤ ہی ہے‘‘ خوابوں کی تفصیل نہیں بتلاتے تھے۔ گھوڑا گلی میں میری چھوٹی ہمشیرہ عزیزہ امتہ اللطیف بیگم نے جب اس بارے میں کچھ دریافت کرنے کی کوشش کی تو فرمانے لگے۔ ’’تم بچے ہو میں تفصیل نہیں بتلاتا تم لوگ گھبرا جاؤ گے‘‘

ایک چیز جس کا بالوضاحت اپنے ایک خط میں ایک بزرگ کے نام ذکر فرمایا وہ یہ تھی کہ میری زبان پر حضرت مسیح موعود کا شعر جاری ہوا ؎

بھر گیا باغ اب تو پھولوں سے

آؤ بلبل چلیں کہ وقت آیا

ان خوابوں کی وجہ سے بہرحال آپ کی طبیعت پر یہ گمان غالب تھا بلکہ یقین کی حد تک پہنچ چکا تھا کہ آپ کی وفات کا وقت قریب ہے۔ خود ماہ جون کے آخر میں ربوہ سے روانگی کے وقت اپنی تجہیز و تکفین کے لئے علیحدہ رقم گھر دے دی۔ پھر لاہور سے مزید رقم یہ کہہ کر والدہ کو ارسال کی کہ میری وفات پر دوست آئیں گے۔ گھر کے عام خرچ سے زیادہ اخراجات ان دنوں ہوں گے۔ اس لئے بھجوا رہا ہوں۔ ایک روز ایک خط بھی اپنے خادم بشیر احمد سے لکھوا کر بھیجا۔ جو ایک قسم کا الوداعی خط تھا۔ اسی طرح ایک بیرون از پاکستان کے خط کے جواب میں لکھوایا کہ آپ نے لکھا ہے کہ آپ لوگ اکتوبر میں یہاں آئیں گے۔ لیکن اکتوبر میں تو میں یہاں نہیں ہوں گا۔ کچھ اس قسم کے الفاظ تھے۔

بیماری کے بارے میں ڈاکٹروں کی رائے

یہ ایک عجیب بات تھی کہ ادھر آپ اپنی وفات کی طرف اشارہ کرتے تھے اور احباب سے بھی ذکر فرماتے تھے۔ مگر دوسری طرف ڈاکٹروں کی رائے میں اس قسم کا فوری خطرہ نظر نہ آتا تھا۔ یہی خیال تھا کہ اصل خطرے والی بیماریاں کنٹرول میں ہیں۔ اور شدید گھبراہٹ اور بے چینی اور بے خوابی کی تکالیف عارضی بتلاتے تھے۔ یہی رائے ایک انگلستان کے ماہر ڈاکٹر نے دی جو ان دنوں پاکستان سے گزرتا ہوا آسٹریلیا جا رہا تھا۔ اس نے ابا جان کو دیکھا اور اپنے ڈاکٹروں کی موجودگی میں کہا کہ میری رائے میں جو دوائیاں میں نے تجویز کی ہیں۔ ان کے استعمال سے دو ہفتہ میں خاصہ افاقہ ہو جائے گا۔ اور 6ہفتہ کے اندر اپنا معمول کا کام کر سکیں گے۔ اور کوئی وجہ نہیں کہ مزید کئی سال تک باحیات نہ رہیں۔ ابا جان کو دیکھ کر ایک اور بات اس نے کہی جو احباب کی دلچسپی کے لئے لکھتا ہوں۔ ابا جان کو دیکھ کر ساتھ والے کمرہ میں آیا اور کہنے لگا: –

ترجمہ: – آپ تورات کے مذکورانبیاء کے مشابہ معلوم ہوتے ہیں۔ اس کی طبّی رائے سے میری طبیعت کچھ اور مطمئن ہو گئی۔ یہ شائد 26یا 27۔ اگست کا دن تھا۔ لیکن اگلے چند روز نے ثابت کر دیا کہ بات وہی درست تھی جس کی اطلاع اللہ تعالیٰ آپ کو خوابوں کے ذریعہ دے چکا تھا۔ اس طبعی معائنہ کے ایک ہفتہ کے اندر نمونیہ کا حملہ ہوا اور ڈاکٹروں کی کوئی کوشش کامیاب نہ ہو سکی۔ ایک رات بخار 107ڈگری سے بھی اوپر چلا گیا۔ اس کے بعد آخری دو تین روز اکثر وقت غنودگی میں گزرا اس حالت میں آپ کی زبان پر اکثر دعائیہ فقرات جاری تھے۔ میری بیوی بتلاتی ہیں کہ کوئی کوئی لفظ سمجھ آتا تھا جیسے ’’ربنا‘‘ یا ایک لفظ ’’طیر‘‘ کا انہیں دھیما سا سنائی دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ایکوقت میں تو یہ معلوم ہوتا تھا کہ عربی میں جیسے کسی سے لمبی گفتگو کر رہے ہیں۔

میری آخری ملاقات

مجھ سے آخری ملاقات غنودگی سے پہلے 31-30 / اگست کو ہوئی۔ میں بیماری کی شدت کا سن کر فوراً چند گھنٹوں میں لاہور پہنچ گیا۔ سیدھا ابا جان کے کمرے میں گیا۔ لیٹے ہوئے تھے۔ مجھے دیکھ کر فرمایا۔ ’’مظفر تم آگئے‘‘ یہ فقرہ ایسے رنگ میں کہا جیسے کسی کا انتظار تھا۔ اس فقرہ میں ایک عجیب اطمینان اور سکون تھا۔ جس سے مجھے کچھ گھبراہٹ ہوئی۔ میں ابا جان کا ہاتھ پکڑ کر سرہانے کی طرف بیٹھ گیا۔ پھر فرمانے لگے۔ ’’کراچی کب جا رہے ہو‘‘ میرا کراچی جانے کا اس بیماری کی شدت سے پہلے کا پروگرام تھا۔ میں نے کہا اب تو میں نہیں جا رہا۔ فرمانے لگے ’’یہ بڑا اچھا فیصلہ ہے۔‘‘ اس کے بعد میں نے کھانے کے لئے عرض کیا فرمانے لگے مجھے بھوک نہیں۔ میں نے کہا آپ کو دوائی دینی ہے خالی پیٹ ٹھیک نہیں رہے گی کچھ کھا لیں۔ اس پر تیار ہو گئے۔ سہارے سے بٹھایا اور اسی کیفیت میں سہارے سے بٹھائے رکھا۔ کیونکہ لیٹ کر کھانا پسندنہ فرماتے تھے۔ کھانے کے بعد دوائی دی اور میں پاس بیٹھا رہا۔ اتنے میں والدہ کا فون آیا۔ میں اٹھ کر جانے لگا۔ فرمانے لگے بیٹھے رہو۔ انہیں فون کا علم نہ تھا۔ میں نے عرض کی کہ اماں کا فون آیا ہے ابھی سن کر آتا ہوں۔ واپسی پر پوچھا۔ ’’تمہاری اماں تھی‘‘ میں نے کہا جی۔ خود فون پر بول رہی تھیں۔ فرمانے لگے میری حالت بتا دی ہے۔ میں نے کہا جی۔ وہ آنا چاہتی ہیں۔ اور میں کار کا انتظام کر رہا ہوں تا صبح آجائیں۔ اس کے بعد کچھ کپکپی سی شروع ہو گئی۔ اور اس کے بعد پھر زیادہ تر غنودگی میں ہی وقت گزرا۔

2 ستمبر کو جب کہ بہت سے احباب کوٹھی 23ریس کورس کے احاطہ میں مغرب کی نماز ادا کر رہے تھے کہ ابا جان کی طبیعت اچانک زیادہ خراب ہو گئی۔ آپ کو دو تین سانس کچھ اکھڑ کر آئے اور ہم سے رخصت ہو کر اپنے مالک حقیقی کے پاس جاپہنچے۔ نماز کے معاً بعد دوڑ کر اندر گیا۔ آپ کا بازو اپنے ہاتھ میں لیا اور اسے بوسہ دیا۔ اور اسی کیفیت میں کچھ لمحوں کے لئے دعائیں کرتا رہا۔ اس کے بعد چونکہ سب عزیز ابا جان والے کمرہ میں اکٹھے ہورہے تھے۔ میں والدہ کے پاس چلا گیا اور ان کے قدموں میں دیر تک بیٹھا رہا۔

حضور کو ابا جان کی وفات کی اطلاع

ابا جان کی وفات کی اطلاع ربوہ بذریعہ ٹیلیفون پہنچا دی گئی۔ چونکہ برادرم مکرم مرزا ناصر احمد صاحب (بعد میں خلیفۃ المسیح الثالث) اور عزیزم ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب لاہور تشریف لائے ہوئے تھے۔ اس لئے رات کو سونے سے پہلے حضور کو ابا جان کی وفات کی اطلاع عمداً نہ پہچائی گئی۔ صبح جب حضور ایدہ اللہ تعالیٰ اٹھے تو ابا جان کے متعلق دریافت فرمایا۔ ام متین نے وفات کی اطلاع دے دی۔ اور پھر بعد میں الفضل کا پرچہ بھی سامنے کر دیا۔ حضور کو اس کا بے حد صدمہ اور قلق تھا۔ لیکن پہلے دو روز بہت ضبط فرماتے رہے۔ ذکر کرنے سے گریز فرماتے تھے۔ لیکن ضبط کی وجہ سے چہرے پر سرخی آجاتی تھی۔ ان دنوں میں بے چینی اور گھبراہٹ بھی بہت رہی۔ میری بیوی سے فرمایا کہ مجھے بڑا کرب اور قلق ہے پھر فرمایا۔ ’’مجھ سے چھوٹے تھے‘‘ ایک مرتبہ فرمایا۔ ’’دعا کرو قادیان واپس ملے تا یہ چکر ختم ہو‘‘

اپنے بچپن کے واقعات کا بھی ذکر فرماتے رہے۔ مجھے ایک روز فرمانے لگے کہ تمہارے ابا جان بچپن کی عمر میں حضرت صاحب کو تو کہہ کر پکارتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک احمدی دوست نے سن لیا تو اس نے ڈانٹا کہ میاں تمہارے ابا ہوں گے۔ لیکن اگر پھر کبھی تم نے حضرت صاحب کو ’’تو‘‘ کہا تو میں ماروں گا۔ حضرت مسیح موعود کو اس کا علم ہوا تو فرمانے لگے: – ’’اسے ’’تو‘‘ کہنے دو۔ مجھے اس کے منہ سے اچھا لگتا ہے۔‘‘ حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی وفات کا بھی ذکر فرماتے رہے اور بچپن کے بعض واقعات بھی بیان فرماتے رہے۔

ابا جان کی تدفین سے پہلے حضرت صاحب سے دریافت کیا گیا کہ کیا آپ چہرہ دیکھنا پسند فرمائیں گے۔ فرمانے لگے ’’مجھے اب برداشت کی طاقت نہیں‘‘

آخری بیماری کے حالات کے بیان کے بعد میں چاہتا ہوں کہ مختصراً آپ کی زندگی کے نمایاں شمائل کا بھی ذکر کروں۔ پھر کسی صاحب قلم کو توفیق ملی تو وہ آپ کی زندگی کے واقعات تفصیلاً محفوظ کر سکے گا۔

اہل اللہ سے عشق

میری طبیعت پر ابا جان کی زندگی کا سب سے گہرا اثر ہے وہ آپ کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود سے عشق کی کیفیت ہے۔ آپ کا طریق تھا کہ گھر کی مجالس میں احادیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے واقعات اور حضرت مسیح موعود کی زندگی کے حالات اکثر بیان فرماتے تھے میرے اپنے تجربہ میں یہ ذکر سینکڑوں مرتبہ کیا ہو گا۔ لیکن مجھے یادنہیں کہ کبھی ایک مرتبہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا حضرت مسیح موعود کے ذکر سے آپ کی آنکھیں آب دیدہ نہ ہوئی ہوں۔ بڑی محبت اور سوز سے یہ باتیں بیان فرماتے تھے اور پھر ان کی روشنی میں کوئی نصیحت کرتے تھے۔ اسی عشق کے جذبہ میں آپ نے اپنی مشہور تصنیف ’’سیرت خاتم النبیین‘‘ کی تین جلدوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات قلم بند فرمائے اور حضرت مسیح موعود کے متعلق روایات اپنی دوسری مشہور تصنیف ’’سیرۃ المھدی‘‘ میں جمع کیں جو تین جلدوں میں شائع ہو چکی ہے۔ یہ ہر دو تصانیف آپ نے محبت اور تحقیق کے علاوہ بڑی محبت سے لکھیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی سے محبت کمال وفاداری اور اطاعت

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ سے بھی بے حد محبت کرتے تھے اور حضور کے خلافت پر فائز ہونے کے بعد اپنا جسمانی رشتہ اپنے نئے روحانی رشتہ کے ہمیشہ تابع رکھا۔ دینی معاملات کا تو خیر سوال ہی کیا تھا دنیاوی امور میں بھی یہی کوشش فرماتے تھے کہ حضور کی مرضی کے خلاف کوئی بات نہ ہو۔ حضور کی تکریم کے علاوہ کمال درجہ کی اطاعت اور فرمانبرداری کا نمونہ پیش کرتے تھے۔ میں نے اس کی جھلکیاں بہت قریب سے گھریلو ماحول میں دیکھی ہیں۔ آپ کی اطاعت اور فرمانبرداری کا رنگ بالکل ایسا ہی تھا جیسا کہ نبض دل کے تابع ہو۔ عمر بھر اس تعلق کو کمال وفاداری سے نبھایا اور اس کیفیت میں کبھی کوئی رخنہ پیدا نہ ہونے دیا۔ مجھے یاد ہے ایک مرتبہ میرے ایک بھائی پر حضور ناراض ہو گئے اور اس ناراضگی کا ’’الفضل‘‘ میں اعلان بھی فرمایا۔ ابا جان نے مشورہ کے لئے ہم سب کو اکٹھا کیا۔ بچوں کے علاوہ جو احباب اس وقت موجود تھے۔ ان میں ہمارے چچا جان (حضرت مرزا شریف احمد صاحب اور غالباً مکرمی درد صاحب بھی شامل تھے۔) میں نے پہلی مرتبہ روتے ہوئے ابا جان کو اس مجلس میں دیکھا۔ بڑا کرب اور قلق تھا۔ اور فرماتے تھے کہ مجھے اپنی اولاد کی دنیوی حالت کی نہ خبر ہے نہ فکر اور شائد میری طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ مجھے کبھی یہ دلچسپی نہیں پیدا ہوئی کہ مظفر کی تنخواہ کیا ہے۔ لیکن باوجود اس تکلیف کے خود حضور کی خدمت میں کوئی درخواست پیش نہ کی اور شائد اسی جذبہ سے نہ کی کہ آپ کی طرف سے ایسی تحریر انتظامی اور جماعتی معاملات میں مداخلت تصور نہ ہو۔ البتہ میرے متعلقہ بھائی کو بار بار اور تاکیداً تلقین کرتے رہے کہ حضور سے معافی کی درخواست اور استدعا کرتے رہو اور اس معاملہ میں خود بھی دعا فرماتے رہے اور اپنے دوستوں اور بزرگوں کی خدمت میں بھی دعا کے لئے باقاعدہ لکھتے رہے۔

حضور کا سلوک بھی ابا جان سے بہت شفقت کا تھا اور ہمیشہ خاص خیال رکھتے تھے اور اہم معاملات میں مشورہ بھی لیتے تھے۔ ضروری تحریرات خصوصاً جو گورنمنٹ کو جانی ہوتی تھیں۔ ان کے مسودات ابا جان کو بھی دکھاتے تھے اور اس کے علاوہ اہم فیصلہ جات اور سکیم پر عمل درآمد کا کام اکثر ابا جان کے سپرد کرتے تھے اور اس بات پر مطمئن ہوتے تھے کہ یہ کام حسب منشاء اور خوش اسلوبی سے ہو جائیگا۔

حضرت اماں جان سے محبت اور ان کا احترام

حضرت اماں جان کا بھی ابا جان بہت احترام کرتے تھے اور ان کے وجود سے جو برکات وابستہ تھیں ان سے کماحقہ فائدہ اٹھانے کی کوشس کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ قادیان میں آپ کامعمول تھا کہ شام کا کھانا قریباً روزانہ حضرت اماں جان کے ساتھ کھاتے تھے۔ کھانا معاً مغرب کی نماز کے بعد کھایا جاتا تھا اور نماز سے فارغ ہو کر سیدھے اماں جان کے گھر جاتے تھے اور شام کا کھانا وہیں کھاتے تھے۔ برادرم مرزا ناصر احمد صاحب کے علاوہ جو ہمیشہ اماں جان کے ساتھ ہی رہے ہیں۔ میں بھی شامل ہو جایا کرتا تھا اور بعض دفعہ اور عزیز بھی۔ کبھی کبھی ماموں جان (حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب) بھی ہوتے تھے اور اس موقع پر اباجان اور ماموں جان میں کسی نہ کسی دینی موضوع پر گفتگو شروع ہو جاتی۔ بعض مرتبہ حضرت اماں جان تنگ آکر فرماتی تھیں میاں اب بس کرو کھانا ٹھنڈا ہو رہا ہے۔

ایسے مواقع پر بعض مرتبہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی بھی مغرب کی نماز کے بعد راستہ میں گھر جاتے ہوئے ٹھہر جایا کرتے تھے۔ ایسے مواقع پر حضور بیٹھتے کم تھے بلکہ صحن یا کمرہ میں موسم کے مطابق جہاں کہیں کھانے کا انتظام ہو ٹہلتے رہتے تھے اور گفتگو فرماتے جاتے تھے۔

حضرت اماں جان کو بھی اباجان سے بہت پیار تھا۔ میری نظروں کے سامنے اب بھی اماں جان ان سیڑھیوں کے اوپر جو ہمارے قادیان کے مکان کو حضرت صاحب اور حضرت اماں کے مکان سے ملاتی ہیں کھڑی دکھائی دیتی ہیں۔ ہاتھ میں پلیٹ ہوتی جس میں کوئی کھانے کی چیز جو انہوں نے پکائی ہوتی تھی پکڑی ہوتی تھی اور ابا جان کو آواز دے کر بلاتی تھیں کہ میاں تمہارے لئے لائی ہوں۔ لے لو۔ ایسے وقت میں کبھی صرف میاں کہہ کر پکارتی تھیں۔ کبھی ’’میاں بشیر‘‘ اور کبھی صرف ’’بشریٰ‘‘ اسی محبت کے نام کی یاد میں اباجان نے ربوہ کے مکان کا نام ’’البشریٰ‘‘ رکھا اور اسے گھر کے دونوں طرف نمایاں کرکے کندہ کروایا۔

اپنی آخری بیماری کے ایام میں ابا جان والدہ کو جاتے ہوئے کہہ گئے تھے کہ میری وفات کے بعد میری الماری میں ایک چھوٹا سا اٹیچی کیس ہے وہ مظفر کو کہنا خود کھولے۔ چنانچہ جب میں نے اسے کھولا تو اس میں بعض اور ذاتی کاغذات کے علاوہ کچھ حضرت مسیح موعود کے دستی لکھے ہوئے خطوط اور چند لفافوں میں کچھ روپے پڑے تھے اور ہر ایک کے ساتھ مختصر سا نوٹ تھا کہ یہ رقم حضرت اماں جان نے بطور عیدی کے ابا جان کو دی تھی۔ اور آپ نے تبرکاً اسے محفوظ رکھا ہوا تھا۔ عیدی کی بعض رقوم قادیان کی دی ہوئی تھیں اور ہندوستانی نوٹ میں تھیں۔ اس لئے ان کے لئے آپ نے اسٹیٹ بنک سے اجازت لے رکھی تھی۔ اور وہ اجازت نامہ نوٹوں کے ساتھ غیر معمولی اہتمام کے ساتھ نتھی کرکے رکھا ہوا تھا۔

حضرت اماں جان کے ابا جان کے ساتھ اس تعلق کا حضرت صاحب کو بھی احساس تھا۔ جب قادیان سے یہ خبریں آنی شروع ہوئیں کہ مقامی حکام کے ارادے اچھے نہیں اور وہ کسی نہ کسی بہانے ابا جان کو قید کرنا چاہتے ہیں۔ تو حضرت صاحب نے اس وجہ سے اور پھر جماعتی کاموں کی خاطر ابا جان کو حکم دیا کہ پاکستان چلے آئیں۔ ابا جان بڑے مخدوش حالات میں قادیان سے روانہ ہو کر لاہور پہنچے۔ حضرت صاحب نے ابا جان کے لاہور بخیریت پہنچنے پر سجدہ شکر کیا اور پھر ننگے پاؤں شوق سے ابا جان کا ہاتھ پکڑ کر حضرت اماں جان کے پاس لے آئے اور فرمایا ’’لیں اماں جان آپ کا بیٹا آگیا ہے۔‘‘

رفقاء مسیح موعود سے لگاؤ اور ان کا احترام

رفقاء حضرت مسیح موعود سے بھی ابا جان کو بہت گہرا لگاؤ تھا اور ان کی بہت عزت اور احترام کرتے تھے۔ ان میں ہر طبقہ کے لوگ تھے اور ہر ایک کے ساتھ یکساں محبت اور مروت سے پیش آتے تھے اور ان کا بہت خیال رکھتے تھے اور بعض کو دعاؤں کے لئے باقاعدہ لکھتے رہتے تھے۔ فرمایا کرتے تھے کہ یہ پاکیزہ گروہ اب آہستہ آہستہ کم ہوتا جا رہا ہے اور اب تو خال خال رہ گئے ہیں۔ ان سے ملتے رہنا چاہئے اور ان کی برکات سے فائدہ اٹھانا چاہئے اور نوجوانوں کو چاہئے کوشش کریں کہ وہ اپنے اندر انہی کے خلوص فدائیت اور تعلق باللہ کا رنگ پیدا کریں۔

احمدیت کے مستقبل کے متعلق مکمل یقین

ایک اور چیز جو اباجان میں نمایاں نظر آتی تھی وہ احمدیت کا مستقبل تھا۔ اکثر احادیث اور حضرت مسیح موعود کی تحریرات اور الہامات کی روشنی میں اس کا گھر کی مجالس میں اور دوسرے دوستوں میں ذکر فرماتے تھے اور اس یقین سے بیان فرماتے تھے کہ احساس پیدا ہوتا تھا کہ گویا کسی واقعہ شدہ باب کا ذکر فرما رہے ہیں۔ جماعت میں بہت سے اندونی اور بیرونی فتنے اٹھے لیکن جہاں آپ ان سے چوکس ضرور ہوتے وہاں ان کی مکمل ناکامی اور اس کے بالمقابل جماعت کی ترقی کے یقین سے پر ہوتے تھے۔ مجھے یاد ہے ایک مرتبہ ایسی ہی کسی موقع پر مکرمی درد صاحب مرحوم نے مجھ سے بات کی۔ فرمانے لگے کہ ان معاملات میں جماعت کے بعض چیدہ چیدہ لوگ بھی گھبرا اٹھتے ہیں۔ لیکن میاں صاحب کا یہ حال ہے کہ جیسے کوئی مضبوط چٹان کھڑی ہو اور اس پر پانی کی لہریں اٹھ کر پڑتی ہوں۔ لیکن وہ وہیں کی وہیں بغیر کسی تزلزل کے قائم و دائم کھڑی ہو۔ جیسا کہ آگے چل کر بتاؤں گا کہ آپ کی طبیعت میں شفقت بہت تھی۔ لیکن باوجود ایسی نرمی اور شفیق طبیعت رکھنے کے جہاں دین کا معاملہ آجائے وہاں دوستوں سے بھی سختی دکھانے میں اجتناب نہ کرتے۔ اپنے عمر بھر کے ایک دوست سے جن سے ہمیشہ بڑی شفقت سے پیش آتے ان سے ایک مرتبہ حضور کسی جماعتی معاملہ میں ناراض ہوئے۔ اس دوست نے اباجان کو ایک ذریعہ سے پیغام بھجوایا کہ میں ملنے آنا چاہتا ہوں آپ نے فرمایا حضرت صاحب اس سے ناراض ہیں آپ کہہ دیں کہ پہلے حضرت صاحب سے معافی لے پھر ملوں گا یوں نہیں مل سکتا۔

بنی نوع انسان سے ہمدردی اور شفقت

ابا جان کی زندگی کا ایک اور نمایاں پہلو بنی نوع انسان کی ہمدردی تھا۔ میں نے آپ جیسا شفیق انسان اور کوئی نہیں دیکھا۔ ہر آن اسی کوشش میں رہتے تھے کہ کسی نہ کسی رنگ میں لوگوں کے کام آسکیں۔ آپ کا دروازہ ہر دردمند کے لئے کھلا رہتا تھا۔ لوگوں کی تکالیف اور ان کی پریشانیوں کے بیان کو بڑے تحمل سے سنتے تھے اور اپنی طاقت اور موقع کے مطابق امداد فرماتے تھے۔ کسی کو اس کے بچوں کے تعلیم کے لئے مشورہ دے رہے ہیں کسی کو ملازمت کے لئے۔ کسی کو علاج معالجہ کے لئے۔ کسی کو مقدمات کی پریشانی کے بارے میں۔ کسی کو کاروبار اور تجارت میں۔ کسی کو رشتہ کے بارے میں۔ ہر ضرورت مند آپ کے پاس آتا تھا اور آپ بڑے اطمینان سے اس کی بات سنتے اور اس کی حتی المقدور امداد فرماتے تھے۔ غربا کی طرف بالخصوص توجہ دیتے تھے اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ آپ ایسے مواقع کوشش سے ڈھونڈتے تھے کہ میں کسی طور سے لوگوں کے بوجھ ہلکے کر سکوں اور ان کی پریشانیوں میں ایک گھر کا فرد ہو کر شامل ہو سکوں۔ ہم بچوں کو ہمیشہ نصیحت فرماتے تھے کہ انسان کو نافع الناس وجود بننا چاہئے۔ ایسی زندگی جو صرف اپنی ذات کے لئے ہو وہ کوئی زندگی نہیں۔ اپنی اس خصوصیت سے اپنے اوپر ہر تکلیف بخوشی قبول فرماتے تھے۔ تعزیت کے لئے جو احباب تشریف لائے ان میں سرگودھا کے ایک غیر از جماعت دوست بھی تھے۔ وہ جس صاحب کے ساتھ آئے تھے انہوں نے بیان کیا کہ جب سے انہوں نے حضرت میاں صاحب کے وصال کی خبر سنی ہے انہیں اس کا شدید صدمہ ہے اور آنکھوں سے آنسو رواں ہیں۔ یہ دوست کہنے لگے کہ میں ایک مقدمہ میں ماخوذ تھا اور بغیر کسی تعارف یا واقفیت کے ربوہ حضرت میاں صاحب کے مکان پر چلا آیا۔ اندر اطلاع بھجوائی کہ میں ملنا چاہتا ہوں۔ خادم جواب لایا کہ میاں صاحب فرماتے ہیں میری طبیعت اچھی نہیں۔ اگر پھر کسی وقت تشریف لائیں تو بہتر ہوگا۔ وہ کہنے لگے میں اپنی تکلیف میں تھا میں نے اصرار کیا کہ میں نے ضرور ملنا ہے۔ اس کے تھوڑی دیر بعد میں نے دیکھا کہ میاں صاحب مکان سے باہر بڑی تکلیف اور مشکل سے دیوار کے ساتھ قریباً دونوں ہاتھوں سے سہارا لئے آہستہ آہستہ چلے آرہے ہیں۔ وہ دوست کہنے لگے میں بہت پشیمان ہوا کیونکہ مجھے اندازہ نہ تھا کہ آپ کو اس قدر تکلیف ہے۔ برآمدہ میں بیٹھ گئے اور میرے حالات بڑی توجہ سے سنے اور فرمایا میں آپ کے لئے ضرور دعا کروں گا۔ اپنی ایسی بیماری کی حالت میں ایک غیر معروف شخص کی خاطر اس طرح باہر چلے آنا آپ کی ہمدردی اور بنی نوع انسان کی خدمت کی ایک مثال ہے۔ میں نے بیسیوں مرتبہ یہی کیفیت دیکھی ہے۔ اپنے آپ کو مشقت میں ڈالتے تھے تا لوگوں کو سکھ نصیب ہو اور ان کے ہر قسم کے معاملات میں گہری دلچسپی لے کر ان سے پوری ہمدردی فرماتے تھے۔ مشورہ بھی دیتے تھے اور جہاں ہو سکے امداد بھی فرماتے تھے۔ یہ سلسلہ صرف ملاقات تک محدودنہ تھا بلکہ اس سلسلہ میں بے شمار خطوط آتے تھے اور آپ ہر ایک کو بغیر توقف جواب دیتے تھے۔ چنانچہ اس آخری بیماری میں بھی یہ سلسلہ جاری رکھا۔ تعزیت کے خطوط میں ایک صاحب نے لکھا کہ میاں صاحب کا خط ان کی وفات کی خبر کے بعد انہیں ملا۔

دوستوں سے ہمدردی کرتے وقت بڑی شفقت اور نرمی سے اپنا ہاتھ دوسرے کے کندھے پر مخصوص انداز میں رکھتے اور دلاسا دیتے تھے اس کا اندازہ وہی کر سکتے ہیں جنہیں اس کا تجربہ ہوا ہو۔

آپ کی بے پایاں شفقت جہاں دوسروں کے لئے تھی وہاں اپنے دوستوں کے لئے اور بھی زیادہ ہوتی تھی اور اس نیک سلوک اور مروت کا سلسلہ اپنے دوستوں کی اولادوں تک کے لئے قائم رکھتے تھے۔ ایک دوست نے مجھ سے بیان کیا کہ اپنی والدہ محترمہ (اہلیہ حکیم قطب الدین صاحب) کا جنازہ ربوہ لے کر گئے۔ رات کے ساڑھے تین بجے کے قریب پہنچے۔ حضرت میاں صاحب کو اطلاع ملی۔ اسی وقت رات کو تشریف لے آئے اور تجہیزو تکفین تک شامل رہے اور ہر طرح ان کے غم میں شریک رہے اور ہمدردی فرماتے رہے۔ اسی طرح صوفی عبدالرحیم صاحب لدھیانوی نے بیان کیا کہ ان کی والدہ (میر عنایت علی شاہ صاحب کی اہلیہ) کا تابوت جب وہ تدفین کے لئے لائے تو اباجان نے کمال ہمدردی سے ان کے غم میں شرکت کی اور فرمانے لگے کہ میر صاحب کو تو ہم اپنے گھر کا فرد سمجھتے ہیں۔ اسی طرح اپنے بچوں کے دوستوں سے بھی بہت شفقت کا سلوک رکھتے تھے اور ان کا خاص خیال رکھتے تھے۔ پچھلے ایام میں جب ہمارے دوست کرامت اللہ صاحب کراچی میں شدید بیمار ہوئے اور اپریشن کے لئے انگلستان گئے تو اباجان ان کے لئے بہت دعا کرتے تھے۔ اور دوسروں کو بھی تاکید سے دعا کے لئے کہتے تھے۔ خود کرامت اللہ صاحب کو خط میں لکھا کہ ’’میں آج کل آپ کے لئے مجسم دعا بن گیا ہوں‘‘ پھر دوبارہ جب کرامت اللہ صاحب علاج کی غرض سے انگلستان تشریف لے گئے تو پھر ان کی بیماری کا شدید احساس تھا اور جہاں خود بھی دعا کرتے تھے وہاں دوستوں کو بھی تحریک کرتے تھے اور بالکل ایسے رنگ میں اور اضطراب سے دعا کرتے تھے کہ جیسے کوئی اپنا بچہ بیمار ہو۔

بچوں سے سلوک

ہم بہن بھائیوں سے بھی بہت شفقت کا سلوک فرماتے تھے۔ اولاد کا احترام کرتے تھے اور جب کبھی ہم باہر سے جلسہ وغیرہ اور دوسرے مواقع پر گھر جاتے تھے تو ہر ایک کے لئے بہت اہتمام فرماتے تھے۔ خود تسلی کرتے تھے کہ سونے والے کمرہ میں بستر وغیرہ ہر چیز موجود ہے۔ غسل خانے میں پانی صابن تولیہ موجود ہے۔ یوں احساس ہوتا تھا جیسا کسی برات کا اہتمام ہو رہا ہے۔ اور ہمیں شرم آتی تھی لیکن خود ذوقاً یہ اہتمام فرماتے تھے۔ ہم واپس چلے جاتے تو کمرے میں آکر دیکھتے کہ کوئی چیز بھول کر چھوڑ تو نہیں گئے۔ اگر کچھ ہوتا تو اسے حفاظت سے رکھوا دیتے اور ہمیں اطلاع ضرور دیتے کہ فلاں چیز تم یہاں چھوڑ گئے ہو۔ میں نے رکھوالی ہے۔ پھر آؤ تو یاد سے لے لینا۔

مجھے فرمایا کرتے تھے کہ بچوں کی تربیت کے معاملہ میں میرا وہی طریق ہے جو حضرت مسیح موعود کا تھا۔ میں انہیں نصیحت کرتا رہتا ہوں۔ لیکن دراصل سہارا خدا کی ذات ہے جس کے آگے جھک کر دعا گو رہتا ہوں کہ وہ تم لوگوں کو اپنی رضا کے راستہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمادے اور دین کا خادم بنا دے۔

ہمیں جب بھی نصیحت فرماتے تو اس میں اس بات کو ملحوظ رکھتے کہ سبکی کا پہلو نہ ہو۔ فرمایا کرتے تھا کہ اگرنصیحت ایسے رنگ میں کی جاوے کہ دوسرے کی خفت ہو تو وہ ٹھیک اثر پیدا نہیں کرتی بلکہ بعض دفعہ الٹا نتیجہ پیدا کرتی ہے۔ مجھے یاد ہے بچپن میں جب بھی میری کوئی حرکت پسندنہ آتی تو اس کے متعلق تفصیل سے خط لکھتے تھے اور بڑے موثر اور مدلل طور پر نصیحت فرماتے تھے۔ کسی خادمہ یا چھوٹے بچے کے ہاتھ خط اس ہدایت سے بھیجتے کہ پڑھ کر اسے واپس کردو۔ اس طریق میں ایک پہلو تو یہی ہوتا تھا کہ دوسروں کے سامنے ڈانٹ ڈپٹ یا نصیحت کا اچھا اثر نہ پڑے گا اور دوسرے بعض مواقع پر شاید حجاب بھی مانع ہوتا ہو۔

ہم بہن بھائیوں کو دین کے کسی معاملہ میں دلچسپی لینے اور کام سے بہت خوش ہوتے تھے اور اپنی خوشی کا اظہار بھی فرماتے تھے اور یہی خواہش رکھتے تھے کہ دنیوی زندگی کا حصہ ایک ثانوی حیثیت سے زیادہ اہمیت حاصل نہ کرے۔

والدہ کی لمبی بیماری اور آپ کی تیمارداری

والدہ کی گذشتہ سات سالہ لمبی بیماری کے دوران میں جس میں بعض ایام میں بیماری کی شدت اور تکلیف بہت بڑھ جاتی تھی۔ آپ نے جس خوشی اور صبر و تحمل سے ان کی تیمارداری کی وہ آپ ہی کا حصہ تھا۔ باوجود اس کے کہ بیمار رہتے تھے۔ لیکن پھر بھی دن اور رات میں متعدد مرتبہ والدہ کے کمرہ میں تشریف لاتے۔ طبیعت پوچھتے اور ساتھ بیٹھے دعائیں کرتے رہتے۔ میری آنکھوں کے سامنے یہ سب نظارے اب بھی تازہ ہیں۔ بعض مرتبہ خود اتنی تکلیف میں ہوتے تھے کہ مشکل سے چل سکتے تھے لیکن اس حالت میں بھی کراہتے، سوٹی یا دیوار کا سہارا لیتے ہوئے آتے اور کافی دیر پاس بیٹھ کر تسلی دیتے اور دعائیں کرتے رہتے۔

سچ یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ ہم بھائی بہن بھی والدہ کی خدمت کرتے رہے۔ گو ہم جوان تھے۔ لیکن یہ ساری خدمت اباجان کی خدمت کا پاسنگ بھی نہ تھی اور میں تو کئی مرتبہ اس Contrast کا احساس کرتے ہوئے شرمندہ ہو جاتا تھا۔ میرے خیال میں آپ کی اپنی بیماری میں زیادہ حصہ حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کی علالت اور والدہ کی بیماری کے گہرے اثر کا تھا۔ حضور کی بیماری سے بالخصوص بہت فکر مند رہتے اور اس کے جماعتی لحاظ سے بداثرات سے چوکس رہتے۔ خود بھی دعائیں کرتے تھے اور اخبارات اور اپنی مجلس میں دوستوں کو بھی تحریک فرماتے رہتے تھے۔ اپنی آخری بیماری میں بھی جب ایک روز خبر آئی کہ حضور کی ران پر زخم کے آثار ہیں تو اس پر بہت پریشان تھے۔ اور آبدیدہ ہو کر مجھے فرمایا یہ بڑی فکر کی بات ہے۔

طبیعت کا رحجان اور اس کی کیفیت

طبیعت کے لحاظ سے آپ بہت حساس تھے اور لوگوں کے جذبات کا خاص خیال رکھتے تھے اور خود بھی اس معاملہ میں کسی لغزش کو محسوس فرماتے تھے۔

طبیعت میں نفاست تھی اور باریک بینی۔ ہر چیز اپنی جگہ پر سلیقہ سے رکھتے تھے اور اس میں کسی قسم کی تبدیلی سے گھبراتے تھے۔ میری آنکھوں کے سامنے اب بھی وہ نظارہ آتا ہے کہ جب اپنی بیماری کی شدت کے آخری ایام میں غالباً 31۔ اگست کی بات ہے۔ میں پاس بیٹھا تھا۔ چارپائی پر لیٹے ہوئے تھراتا ہوا آپ کا ہاتھ اٹھا اور اسے سرہانے میز کی طرف بڑھایا۔ میں نے محسوس کیا کہ گھڑی جو میز پر پڑی تھی وہ کچھ ترچھی پڑی تھی اسے سید ھا کرنا چاہتے تھے۔ میں نے جلدی سے اسے سیدھا کرکے رکھ دیا۔ اس کے کچھ وقفہ کے بعد پھر کانپتا ہوا ہاتھ میز کی طرف بڑھایا اور دو قلم جو ترچھے پڑے تھے انہیں بڑی احتیاط سے سیدھا کرکے رکھدیا۔ اور پھر غنودگی کی سی کیفیت میں آنکھیں بند کر لیں۔ اس میلان طبیعت کے لحاظ سے ہر چیز کو تحریر میں لے آتے تھے اور چھوٹے سے چھوٹے معاملہ کی ایک علیحدہ فائل کھول کر اس میں تمام متعلقہ کاغذات اہتمام سے رکھتے تھے۔ خط لکھتے وقت یادداشتی نوٹ نمبروار لکھتے اور انہیں سرخ سیاہی سے نمایاں کر لیا کرتے تھے۔ ایک سے زائد کاغذ پن کے ساتھ نتھی کرتے غرضیکہ نفاست اور باریک بینی کے اس میلان کا مظاہرہ ہر جگہ ہوتا تھا۔

انتظامی قابلیت خدا نے بہت دے رکھی تھی اور ہر انتظامی معاملہ میں بڑی تفصیل میں جاتے تھے اور اس کے کسی پہلو کو نظرانداز نہ ہونے دیتے تھے۔ فرمایا کرتے تھے کہ موٹی موٹی باتیں تو ذہن میں آہی جاتی ہیں لیکن انتظامی ناکامی چھوٹی باتوں کی طرف سے غفلت کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے۔

طبیعت کے اس محتاط پہلو کا نتیجہ تھا کہ جہاں تحریر کو بڑی احتیاط سے دیکھتے اور درستی فرماتے وہاں زبانی ارشاد کو دوسرے سے دہروا لیا کرتے تھے تا غلط فہمی کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔

معاملہ کے بہت صاف تھے ہر چیز کا باقاعدہ حساب رکھتے اور اس معاملہ میں کسی قسم کی کوتاہی نہ خود کرتے اور نہ دوسرے کی طرف سے پسند فرماتے۔ قرض سے بہت بچتے تھے۔ خود تنگی برداشت کر لیتے لیکن قرض سے حتی الوسع گریز کرتے اور اگر کبھی ناگزیر ہو جائے تو اس کی ادائیگی میں کمال باقاعدگی سے کام لیتے۔ طبیعت کا یہ خاصہ صرف مالی لین دین تک محدودنہ تھا بلکہ ہر شعبہ میں نمایاں ہوتا۔ سیدھی بات کو پسند فرماتے اور پیچدار بات سے بیزاری کا اظہار فرمایا کرتے تھے۔

لباس بہت سادہ پہنتے تھے اور تنگ لباس کو برداشت نہ کرتے تھے۔ سفید قمیض اور شلوار۔ کھلا لمبا کوٹ اور پگڑی پہنتے تھے۔ کبھی کبھی خصوصاً غیر رسمی موقع پر ٹوپی بھی پہن لیتے تھے۔ شروع میں دیسی جوتی پہنا کرتے تھے لیکن بعد میں گرگابی طرز کا کھلا بغیر تسموں والا بوٹ۔ یہی سادگی رہائش میں پسند فرماتے تھے۔ اور نمائش کی چیزوں سے گھبراتے تھے۔ رہائش میں مشقت پسند فرماتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ جب شروع شروع میں Air Condition کا رواج بڑھا اور میں نے ایک خریدا تو میری طبیعت پر یہ بات گراں گزری کہ میں اپنے لئے کوئی ایسا آرام ڈھونڈوں جو ابا جان کے استعمال میں نہ ہو۔ چنانچہ میں نے اس کیفیت کے مدنظر اور ربوہ کی شدید گرمی کا احساس کرتے ہوئے ایک Air Condition تحفتہً بھیجا اور آدمی بھیج کر اسے آپ کے کمرے میں لگوا دیا۔ اسے استعمال فرماتے رہے لیکن ایک مرتبہ خراب ہو گیا تو خفگی سے فرمایا کہ مظفر نے خواہ مخواہ مجھے اس کی عادت ڈال دی ہے۔ اور اس کے بند یا خراب ہونے سے اب مجھے تکلیف ہوتی ہے ورنہ میں اپنے لئے کسی ایسی سہولت کو مرغوب نہیں پاتا۔

طبیعت میں بلند پایہ مزاح بھی تھا اور بعض مرتبہ نصیحت کرتے وقت اس جوہر سے کام لیتے تھے۔ اپنے ایک پرانے رفیق (مکرمی درد صاحب) کا ایک بچہ باہر سے ربوہ آیا اور بغیر ملاقات واپس چلا گیا تو اسے لکھا کہ میں نے سنا ہے تم آئے تھے لیکن اغلباً تم نے اپنے بزرگوں سے تعلقات کو کافی سمجھا اور ملاقات کی ضرورت کو محسوس نہیں کیا۔

علمی ذوق اور تصانیف و طرز تحریر

علمی تحقیق کا ذوق رکھتے تھے اور نوجوانی کے زمانہ سے احمدیت کی خدمت میں اپنا قلم اٹھایا اور 24 کے قریب قیمتی کتب اور رسائل کا روحانی خزانہ اپنے پیچھے چھوڑا۔ اس کے علاوہ وہ الفضل میں باقاعدگی سے ہر موقع پر مضامین لکھتے رہے۔ طرز تحریر بہت دلکش اور سادہ تھی اور مشکل سے مشکل مضامین کو سادگی سے نبھانے والی اور بڑی صاف تحریر تھی جو اپنے خلوص کی وجہ سے دل میں اترتی جاتی تھی۔ اپنی کتب میں سیرۃ خاتم النبیین اور سیرۃ المہدی کے علاوہ تبلیغ ہدایت کو بھی اس خیال سے پسند فرماتے تھے کہ یہ میری جوانی کے زمانہ کی یادگار ہے۔ جب آپ نے یہ مفیدکتاب لکھی تو آپ کی عمر اس وقت 29سال تھی۔

مرکز سے گہری وابستگی

مرکز احمدیت سے گہری وابستگی رکھتے تھے۔ شروع میں قادیان اور پھر ربوہ سے بھی وابستگی قائم رہی۔ مرکز سے باہر جانا آپ کی طبعت پر گراں گزرتا تھا اور سوائے خلیفہ وقت کے حکم یا اشد طبی ضرورت کے باہر نہ جاتے تھے۔ قادیان سے عشق قائم تھا اور درویشان کی خدمت بڑے ذوق اور شوق سے کرتے تھے۔ حضرت مسیح موعود کے الہامات اور تحریرات کی روشنی میں اس پختہ یقین پر قائم تھے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت اپنے وقت پر مرکز احمدیت جماعت کو واپس دلائیگی اور کوئی دنیاوی تدبیر اس میں حائل نہ ہو سکے گی۔ فرمایا کرتے تھے کہ الہامات اور حضرت اقدس کی تحریرات میں وقت کا تعین نہیں بلکہ یہ اشارہ ہے کہ یہ واقعہ اچانک اور ایسے رنگ میں ہوگا کہ بظاہر ناممکن نظر آئے گا اور اس کی درمیانی کڑیاں نظر سے اوجھل رہیں گی۔

مرکز سے وابستگی کا یہ عالم تھا کہ اپنی آخری بیماری کے ایام میں جب گھوڑا گلی طبی مشورہ کے تحت تشریف لے گئے تو ایک منذر خواب کی بنا پر فرمایا کہ پروگرام سے پہلے واپس چلیں اور مجھے کہنے لگے کہ پرندہ اپنے گھونسلے میں خوش رہتا ہے۔ میں تو ربوہ جانا پسند کرونگا لیکن چونکہ وہاں بجلی کا انتظام ناقص ہے اور شائد طبی لحاظ سے بھی لاہور سے گزرنا مناسب ہو اس لئے لاہور جانا پڑتا ہے۔ ایسی کیفیت کے تحت میرے چھوٹے بھائی مرزا منیر احمد صاحب کو تاکیداً فرمایا کہ دیکھو میرا جنازہ ربوہ بغیر کسی توقف کے لے جانا۔ چنانچہ اسی خواہش کے مدنظر ہم رات کو ہی لاہور سے چل پڑے اور رات ساڑھے تین بجے ربوہ پہنچے۔

دو ذاتی دعائیں

مضمون میرے اندازہ سے کچھ لمبا ہو گیا ہے۔ لیکن ایک دو امور کا ذکر کرکے اسے ختم کرتا ہوں۔ ذاتی دعاؤں میں اباجان دو باتوں کے لئے بہت دعا فرمایا کرتے تھے۔ اول یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنی رضا کے راستہ پر چلنے کی توفیق بخشے اور دوئم انجام بخیر ہو۔ اس آخری امر کے لئے بڑی تڑپ رکھتے تھے اور ہمیشہ اس پر زور دیا کرتے تھے۔ مجھے کئی بار فرمایا کہ ایک انسان ساری عمر نیکی کے کام کرتا ہے لیکن آخر میں کوئی ایسی بات کر بیٹھتا ہے جو خدا کی ناراضگی کا مورد ہو جاتی ہے اور جہنم کے گڑھے کے سامنے آکھڑا ہوتا ہے۔ ایک دوسرا انسان ساری عمر بداعمال میں گزارتا ہے لیکن آخر میں ایسا کام کر جاتا ہے جو خدا کی خوشنودی کا باعث ہو جاتا ہے۔ سو اصل چیز انجام بخیر ہے اور اس کے لئے ہمیشہ دعا کرتے رہنے چاہئے۔ خود اپنے لئے اس کی ہمیشہ سے بہت دعا فرمایا کرتے تھے اور کسی سے کہا کہ میں نے ایک مرتبہ بڑے اضطرار سے یہ دعا کی اور خدا سے درخواست کی کہ اس بارہ میں مجھے کوئی تسلی دے دے۔ اس دعا پر جو اغلباً قرآن شریف کی تلاوت کے دوران میں کر رہے تھے یکدم دائیں ورق پر موٹے الفاظ میں صرف یہ دو الفاظ لکھے نظر آئے ’’بغیر حساب‘‘ غرضیکہ تعلق باللہ۔ عشق رسول۔ مسیح زمان سے گہری روحانی وابستگی۔ خلیفہ وقت کی بے مثال اطاعت اور فرمانبرداری۔ خلق خدا سے بے پایاں شفقت۔ غرباء سے ہمدردی۔ مرکز سے گہرا لگاؤ اور احمدیت کے مستقبل پر کامل یقین۔ آپ کی زندگی کے خصوصی پہلو تھے۔ اپنی ساری عمر اپنی تمام تر طاقت اس کوشش میں صرف کی کہ خدا کا نام بلند ہو اور اس کی مخلوق کی بھلائی ہو۔ عین جوانی میں وقف دین کا عہد باندھا اور آخری سانس تک اسے بڑے ذوق اور شوق سے نبھایا۔ احمدیت کی یہ مایہ ناز شخصیتیں زمانہ کے لحاظ سے ہمارے بہت قریب کھڑی ہیں اور ہم ان کی قدرو منزلت اور مقام کا صحیح اندازہ نہیں لگا سکتے۔ لیکن احمدیت کا آنے والا مورخ ان کے خط و خال کو اجاگر کرے گا اور تاریخ کے اس دور سے نہیں گزر سکے گا جب تک وہ مسیح موعود کے ان پروانوں کو خراج تحسین نہ ادا کرے۔ یہ خوش قسمت لوگ مسیح موعود کی فوج کے صف اول کے سپاہی ہیں جن کی زندگی کا مقصد ایک اور صرف ایک تھا کہ دین نبی (محمدﷺ ) کی پہچان ہو۔ ان لوگوں نے اپنی تمام طاقتیں اور کوششیں اس مقصد کے حصول کے لئے بے دریغ خرچ کر دیں اور خدمت دین کا حق ادا کیا۔ احمدیت کے پودے کی اپنے خون اور قربانی سے آبیاری کی اور دنیا کی کوئی کشش اس کے راستہ میں حائل نہ ہونے دی۔ دین سے باہر کسی چیز میں کبھی دلچسپی لی تو فروعی اور وقتی طور پر اور زندگی اور ہر توجہ کا مرکزی نقطہ ہمیشہ خدمت دین رہا۔ اپنی تمام زندگی کا یہی Moto رہا کہ دین دنیا پر بہرحال مقدم رہے اور اپنے پر ہر موت اس لئے وارد کی تا دین زندہ ہو۔

مجھے یاد ہے ایک مرتبہ ایک بیماری کے حملہ کے دوران ڈاکٹروں نے اباجان کو مشورہ دیا کہ اب آپ کی صحت کی حالت ایسی ہے کہ آپ کام کم کیا کریں۔ آپ نے اس مشورہ کو قبول نہیں فرمایا اور فرمانے لگے۔ میں تو یہی چاہتا ہوں کہ دین کی خدمت کرتے کرتے انسان جان دیدے۔ چنانچہ ڈاکٹروں کو یہ مشورہ دیا گیا کہ آپ ابا جان کو کام کرنے سے نہ روکیں۔ بلکہ یہ مشورہ دیں کہ آپ تھوڑے عرصہ کے لئے آرام فرمالیں تا پھر تازہ دم ہو کر پہلے کی طرح اپنا کام کرتے چلے جائیں۔ چنانچہ یہ گر کارگر ہوا اور کچھ عرصہ کے لئے آرام کا مشورہ آپ نے اس رنگ میں قبول فرمایا کہ کچھ دن کے لئے کام کو کچھ ہلکا کر دیا۔

اے جانیوالے تجھ پر خدا کی ہزاروں رحمتیں ہوں کہ تو عمر بھر اپنے اور غیروں سب کے لئے ایک بے پایاں شفقت اور رحمت کا سایہ بن کر رہا۔ دیکھ میرا ہاتھ کانپ رہا ہے۔ اور میری انکھیں اشکبار ہیں اور میرا دل تیری یاد میں بے قابو ہوا جاتا ہے۔ اے اللہ رحم کر رحم۔ میرے مولا ہم کون؟ جو تیری قضا کے فیصلہ کے سامنے کسی قسم کی چون و چرا کریں۔ تو گواہ ہے کہ باوجود اس کی تمام تلخیوں کے ہم نے تیری تقدیر کو بانشراح صدر قبول کیا ہے۔ لیکن میرے مولا تیرے در کا سوالی تجھ سے ایک بھیک مانگتا ہے۔ میرے ابا کا خاکی جسم تو ہم سے جدا ہو گیا لیکن ان کی برکات ہمارے ساتھ رہنے دیجؤ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہم سے وہ کام لے لے جس سے تو رو راضی ہو جائے اور جو ہمارے باپ کی روح کے لئے تسکین کا باعث ہو۔

شکریہ احباب

بالآخر میں تمام احباب کا ممنون ہوں جنہوں نے ابا جان کے لئے اور ہمارے لئے دعائیں کیں اور کر رہے ہیں۔ اور آپ کے ان معالجوں کا جنہوں نے آپ کی بیماری میں کمال محبت اور محنت سے علاج کی تکلیف اٹھائی۔ ان ڈاکٹروں میں ربوہ میں عزیزم ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب اور لاہور میں ڈاکٹر محمد یعقوب صاحب بالخصوص قابل ذکر ہیں۔ مکرمی ڈاکٹر یعقوب صاحب نے اس آخری بیماری میں اور اس سے پہلے بھی ہر بیماری کے موقع پر بے حد محبت اور اخلاص سے علاج کیا۔ لاہور میں صبح و شام کا آنا تومعمول تھا ہی۔ اس کے علاوہ بھی ضرورت کے موقع پر بلا توقف تشریف لاتے تھے اور دیر تک پس بیٹھے رہتے تھے۔ اسی طرح ڈاکٹر مسعود احمد اور کرنل عطاء اللہ صاحب نے بھی بڑے اخلاص اور محبت سے علاج اور تیمارداری میں حصہ لیا۔ اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر دے اور جو آرام اور راحت انہوں نے میرے باپ کو پہنچانے کی کوشش کی ہے وہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کو اور ان کی اولادوں کو پہنچائے۔ خادموں میں سے سب سے اول بشیراحمدنے خدمت کی نہ صرف بیماری میں بلکہ گزشتہ قریباً بیس برس سے اس نے حددرجہ وفاداری اور جاں نثاری سے خدمت کی ہے اور اباجان بھی اس کا خیال رکھتے تھے اور اس سے بچوں کی طرح محبت کرتے تھے۔

جنازہ کے موقع پر بھی احباب جماعت کثیر تعداد میں شریک ہوئے اور ایک اندازہ کے مطابق کوئی 7-6ہزار لوگ باہر سے ربوہ تشریف لائے۔ بعض ان میں سے دور دور کے مقامات سے باوجودیکہ وقت بہت کم ملا تکلیف اٹھا کر آئے۔ مجھے شیخ فیض محمد صاحب نے سنایا کہ کراچی سے جنازہ میں شمولیت کے لئے آرہے تھے کہ ایک دیہاتی ملتان سے ہوائی جہاز پر سوار ہوا اور ان کے ساتھ لائل پور اترا۔ لائلپور اس نے دریافت کیا کہ آپ کہاں تشریف لے جارہے ہیں۔ جب انہوں نے کہا کہ ربوہ تو اس نے درخواست کی کہ وہ اس کو بھی Taxi میں ساتھ لیتے جائیں۔ ان کے پوچھنے اس نے کہا کہ مجھے اپنے گاؤں میں حضرت میاں صاحب کی وفات کی خبر ملی تو میں اسی وقت ریلوے سٹیشن گیا تو گاڑی نکل چکی تھی۔ بسوں کے اڈہ پر گیا لیکن وہاں سے بھی پہنچنے کی کوئی صورت نہ بنتی تھی۔ میرے اس اضطراب پر کسی نے کہا کہ ہوائی جہاز سے جاؤ تو شائد پہنچ سکو۔ سو یہ بچارا ہوائی اڈہ پر پہنچا اور وہاں سے ٹکٹ خرید کر لائل پور آیا۔ شیخ صاحب کہتے تھے کہ اس کی حالت یہ تھی کہ شائد وہ اپنی کسی دنیوی ضرورت کے لئے اتنی رقم کبھی خرچ کرنے کوتیار نہ ہوتا جو اس نے تکلیف اٹھا کر جنازہ میں شمولیت کی خاطر برداشت کی۔ اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین

تعزیت کے پیغامات

تعزیت کے پیغامات اور خطوط بھی سینکڑوں کی تعداد میں دنیا بھر سے آچکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو جزائے خیر دے جنہوں نے غم میں شریک ہو کر اس کے ہلکا کرنے کی کوشش کی بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اسے اپنا سمجھا۔ بعض دوست یہ کہہ رہے تھے ہم تعزیت کس سے کرنے جائیں۔ ہم تو کہتے ہیں لوگ ہم سے تعزیت کریں۔ متعدد احباب نے اپنے خطوط میں یہ لکھا کہ ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہم آج یتیم ہو گئے۔ بعض دوستوں نے یہاں تک لکھا کہ ہمیں حضرت میاں صاحب کی وفات کا صدمہ اپنے والد کی وفات کے صدمہ سے زیادہ ہوا ہے اور ایک مخلص دوست نے مجھے بتایا کہ بیماری کے شدت کے ایام میں وہ خدا کے حضور یہ دعا کرتے رہے کہ اے اللہ تو میری زندگی بھی حضرت میاں صاحب کو دیدے کیونکہ میری موت سے ایک خاندان پر مصیبت آتی ہے لیکن حضرت میاں صاحب کی وفات جماعت کے لئے صدمہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے ہم سب کو محبت اور اخوت کے اس رشتہ میں منسلک کر دیا ہے کہ دوسرے کی تکلیف اپنی اور بعض حالات میں اپنے سے بڑھ کر محسوس ہوتی ہے۔

محترم چوہدری محمد ظفراللہ صاحب کا تعزیتی خط

ان تعزیت کے خطوط میں ابا جان کی وفات سے ایک روز بعد کا امریکہ سے لکھا ہوا خط مکرم چوہدری محمد ظفراللہ خاں صاحب کی طرف سے بھی ملا۔ جناب چوہدری صاحب نے اپنے خط میں ابا جان کی سیرت کا بڑا صحیح نقشہ کھینچا ہے اس لئے اس خط سے ایک اقتباس درج ذیل کرتا ہوں۔ ’’میں ابھی تک اس قابل نہیں ہوا ہوں کہ اپنے خیالات کو پورے طور پر مجتمع کرکے آپ کو ایک مربوط خط لکھ سکوں۔ آپ کے واجب الاحترام والد کی وفات نے میری زندگی میں خلاء پیدا کر دیا ہے۔ جیسا کہ آپ کو بخوبی علم ہے ہماری بہت قریبی اور گہری اور جہاں تک ان کا تعلق ہے ان کی جانب سے بہت ہی مشفقانہ وابستگی 53سال سے بھی زائد عرصہ تک جاری رہی۔ اس تمام عرصہ میں کبھی اختلاف یا غلط فہمی کا شائبہ بھی پیدا نہیں ہوا۔ فیض کا چشمہ ایک ہی سمت بہتا رہا یعنی ان کی جانب سے میری طرف۔ ان کی محبت اور نوازشات کی کوئی انتہا نہ تھی۔ ان محبتوں اور شفقتوں کا سلسلہ اختتام پذیر ہوا تو صرف ان کی وفات پر۔ ان کے لئے اور ان کے عزیزوں کے لئے مخلصانہ دعاؤں کے سوا میں ان کی کوئی خدمت بجا نہ لاسکتا تھا اور کسی لحاظ سے بھی ان کی پیہم نوازشات کا بدلہ نہ اتار سکتا تھا۔ میں اس خیال سے کسی قدر تسلی پاتا ہوں کہ مخلصانہ دعاؤں میں مجھ سے کبھی کوتاہی سرزدنہیں ہوئی۔ اب وہ رحلت فرما گئے ہیں اور انہوں نے اپنے پیچھے جو خلاء چھوڑا ہے اس سے آپ سب کی زندگیاں اور میری زندگی ہی متاثر نہیں ہوئی بلکہ پاکستان میں بھی اور پاکستان سے باہر بھی ہر جگہ جماعت پر اس کا اثر پڑا ہے۔

حضرت صاحب کی علالت ان کے لئے مسلسل دکھ اور ملال کا موجب رہی۔ اس کی وجہ سے ان کے کندھوں پر عظیم ذمہ داریوں کا بوجھ آپڑا اور بسا اوقات انہیں پریشان کن اور بہت کٹھن حالات سے دوچار ہونا پڑتا۔ انہوں نے اس بار عظیم اور مشکلات و مصائب کو بڑی سنجیدگی و وقار، کامل وفاداری اور بڑی جواں ہمتی اور مستقل مزاجی سے اٹھایا۔ ہر لمحہ انہوں نے اپنے وجود کے ذرہ ذرہ کو خداتعالیٰ اور اس کی دین کی راہ میں وقف کئے رکھا اور اس راہ میں کئی موتیں اپنے پر وارد کیں۔ ان کی جسمانی وفات ان کے لئے اس کمر جھکا دینے والے بوجھ سے جسے انہوں نے شکایت کا ایک لفظ بھی زبان پرلائے بغیر بطیب خاطر دن رات اٹھائے رکھا خوش آئند رہائی کا درجہ رکھتی ہے۔ خواہ دل نے کتنے ہی آنسو بہائے ہوں اور وہ کتنا ہی خون ہو ہو گیا ہو ان کی زبان سے اپنے خالق و مالک کے لئے محبت اطاعت، وفاداری تسلیم و رضا او رتحمید و تمجید کے الفاظ کے سوا کوئی لفظ نہیں نکلا۔ وہ ہم سب کے لئے ایک عظیم الشاں اور درخشندہ تابندہ اسوہ تھے۔‘‘

میرے لئے یہ امر قدرے اطمینان کا باعث ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بھی اور میرے بھائی بہنوں کو بھی اپنے اپنے رنگ میں اباجان کی خدمت کی توفیق بخشی۔ میری کسی خدمت کی توفیق میں سب سے بڑا حصہ اور دخل میری بیوی امتہ القیوم بیگم دختر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کا ہے جنہوں نے ہر موقع پر خود تکلیف اٹھاکر اباجان اور والدہ کی بڑے شوق اور محبت سے خدمت کی۔ میرا دل ان کے لئے شکر کے جذبات سے لبریز ہے۔ اباجان کی ایک امانت ہمارے سپرد ہے۔ دوست جہاں ہم سے کے لئے اور دینی دنیاوی امور کے لئے دعا کریں وہاں یہ بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو والدہ محترمہ کی ایسی خدمت کی توفیق بخشے کہ وہ ہماری کسی حرکت سے غمگین نہ ہوں اور اباجان کی بے مثال تیمار داری کی کمی کسی رنگ میں محسوس نہ کریں۔

(الفضل 20۔ اکتوبر 1963ء)