ایم ایم احمد ۔ شخصیت اور خدمات

فہرست مضامین

خلافت احمدیہ کے فدائی اور محب وطن

(مکرم محمد صدیق صاحب گورداسپوری)

حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب مرحوم ابن حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔ اے کو حضرت مسیح موعود کا پوتے ہونے کا شرف حاصل تھا پھر آپ نے ایک لمبا عرصہ تک بطور امیر جماعت ہائے احمدیہ امریکہ گرانقدر خدمات سلسلہ سرانجام دینے کی توفیق پائی۔ آپ کے دور امارت میں جماعت ہائے احمدیہ امریکہ نہ صرف انتظامی لحاظ سے مضبوط ہوئی بلکہ تعلیم وتربیت اور مالی قربانی کے لحاظ سے بھی جماعت نے ایک اعلیٰ مقام حاصل کر لیا۔ اللہ تعالیٰ جماعت امریکہ کو نہ صرف یہ معیار قائم رکھنے کی توفیق دے بلکہ مزید ترقیات حاصل کرنے کی استطاعت بخشے۔

خاکسار نے جب جولائی 1974ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کے ارشاد پر امریکہ مشن کا چارج لیا تو مجھے حضرت صاحبزادہ صاحب کو بہت قریب سے دیکھنے کاموقع ملا۔ آپ کو میں نے ایک تقویٰ شعار منکسر المزاج، نظام جماعت کا کامل فرمانبردار اور صاحب فراست وجود پایا۔

آپ اس وقت ورلڈ بنک میں ڈائریکٹر اور آئی ایم ایف کے سٹاف میں ایگزیکٹو سیکرٹری کے منصب پر فائز تھے۔ آپ ہر جمعہ کو باقاعدہ نماز کی ادائیگی کے لئے بیت الذکر واشنگٹن میں تشریف لاتے اور نماز کی ادائیگی کے بعد حال احوال دریافت فرماتے جماعتی میٹنگز میں جب بھی آپ کو بلایا جاتا آپ بخوشی تشریف لاتے اور نہایت مفید مشوروں سے نوازتے آپ مشن اور جماعتی کاموں کی سرانجام دہی میں ہمیشہ خاکسار کی راہنمائی اور تعاون فرماتے۔

ایک روز فرمانے لگے مجھے علم ہے کہ اس مشن میں ابھی تک باقاعدہ ریکارڈ کا کوئی سسٹم نہیں نہ ہی فائیلنگ کا انتظام ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مشن کے کاموں پر آپ کی کیسی گہری نظر تھی فرمایا آپ ایک سیکرٹری یا ٹائپسٹ رکھ لیں اور اس سے مشن کا ریکارڈ وغیرہ درست کروالیں۔ میں نے کہا میاں صاحب مشن کی اس وقت مالی پوزیشن اتنی کمزور ہے کہ مشکل سے مربیان کے الاؤنس اور دیگر اخراجات چلتے ہیں ایک ٹائپسٹ کی تنخواہ جو کم از کم پانچ صد ڈالر ماہوار ہو گی(اس وقت مربی کو صرف ایک سو ڈالر ماہوار الاؤنس ملتا تھا) وہ کہاں سے ادا کروں گا فرمانے لگے اس کی آپ فکر نہ کریں میں واشنگٹن جماعت کی طرف سے اس کا انتظام کر دوں گا۔ لہٰذا میں نے ایک لوکل احمدی ایک خاتون سسٹر فاطمہ سے بات کی وہ رضا مند ہو گئیں اور انہوں نے پانچ صد ڈالر ماہوار پر مشن میں کام شروع کر دیا اور نہایت اخلاص اور محنت سے اس ذمہ داری کو سرانجام دیا مشن کا سارا ریکارڈ درست کیا فائیلنگ سسٹم جاری کیا۔ ٹیلیفون ڈائریکڑی جماعتوں کی تیار کی۔ لائبریری کی کتب کی لسٹ تیار کی ان کو ترتیب دیا چھ ماہ تک انہوں نے یہ کام کیا اور حضرت صاحبزادہ صاحب اس کا الاؤنس اد افرماتے رہے، مشن پر کوئی بوجھ نہیں تھا۔ اس سے مشن کے کام میں خاکسار کے لئے بہت ہی آسانی پیدا ہو گئی۔

وہ وقت ایسا تھا کہ پاکستان میں جماعت احمدیہ کے خلاف ہنگامے ہو رہے تھے، احمدیوں پر بے پناہ مظالم ڈھائے جا رہے تھے جائیدادیں تباہ کی جا رہی تھیں لوٹی جا رہی تھیں بعض احمدیوں کو راہ مولیٰ میں قربان بھی کیا گیا ایسے حالات میں جماعت امریکہ کی طرف سے یو این او کے ہیومن رائٹس کمیشن (Human Rights Commission) کو میمورنڈم بھجوانا تھا۔ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور ہائی کمشنر پاکستان سے رابطہ پیدا کر کے حالات کی وضاحت کرنی تھی پریس کانفرنس کے ذریعہ احتجاج کرنا تھا اور دیگر ذرائع کو بھی اس سلسلہ میں استعمال میں لانا تھا لہٰذا حضرت صاحبزادہ صاحب نے ان حالات میں ہر قدم پر ہماری راہنمائی فرمائی اور اپنے فہم وفراست سے کام لیتے ہوئے مفید اور دور رس نتائج کے حامل مشوروں سے نوازتے رہے۔

پاکستان میں 1974ء میں جماعت کے خلاف چلنے والی تحریک اور جماعت کو نقصان پہنچانے کے زمانے میں آپ کی سیرت کا ایک پہلو نمایاں طور پر یہ سامنے آیا کہ آپ پاکستان سے محبت اور عقیدت رکھتے تھے اس وجہ سے آپ نے آخر وقت تک اپنی پاکستانی قومیت ختم نہیں کی تھی لہٰذا آپ احتجاجی خطوط یامیمورنڈم میں کوئی ایسا فقرہ برداشت نہ کرتے جس سے پاکستان کے وقار یا ساکھ پر کوئی زد پڑتی ہو اور پاکستا ن کے خلاف کوئی بات لکھنے سے روک دیتے انہیں دنوں میں نے جب لندن فون کر کے حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب جن کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے بیرونی ممالک میں اپنا نمائندہ مقرر فرمایا تھا ان سے ہدایات لیں تو آپ نے بھی فرمایا کہ دیکھیں احتجاج ضرور کریں لیکن پاکستان کے خلاف کوئی بات نہیں کرنی پاکستان سے کیسی عقیدت اور محبت تھی ان بزرگوں کو۔

اس وقت یو این او میں انڈیا کے نمائندہ ڈاکٹر سیدبرکات احمدتھے انہوں نے ایک میمورنڈم میں پاکستان کے بارہ میں کچھ سخت الفاظ استعمال کئے۔ جب یہ میمورنڈم حضرت میاں صاحب کی خدمت میں مشورہ کے لئے پیش کیا گیا تو آپ نے اسے پسندنہ فرمایا اور کہا کہ اس میں سے ایسے الفاظ نکال دئیے جائیں جن سے کسی رنگ میں بھی پاکستان کی عزت اور وقار پر زد پڑتی ہے چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ اسی طرح جب فروری 1976ء میں وزیر اعظم بھٹو صاحب امریکہ گئے اور واشنگٹن میں انہوں نے امریکن کانگرس کے ممبران سے خطاب کرنا تھا توخاتون سسٹر نسیمہ جو جرنلسٹ تھیں انہوں نے ایک خط تیار کیا جو کانگرس کے ممبران کو دینا چاہتی تھیں اس میں انہوں نے پاکستان میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیئے جانے اور بھٹو حکومت کے زیر اثر احمدیو ں پر جو مظالم ڈھائے جا رہے تھے اور جو انسانیت سوز سلوک ان سے پاکستان میں ہو رہا تھا اس کے خلاف احتجاج تھا۔ یہ خط وہ میرے پاس لائیں میں نے بھی اسے پسندنہ کیا اور مزید مشورہ کے لئے فوری طور پر حضرت مرزا مظفر احمد صاحب کی خدمت میں پیش کر دیا آپ نے خط پڑھ کر فرمایا کہ ایسا خط ہرگز ممبران کانگرس کو نہیں جانا چاہئے۔ چنانچہ وہ خط روک لیا گیا۔ جس پر سسٹر نسیمہ سخت ناراض ہوئیں۔ اور کہا کہ جب ہم کچھ کرتے ہیں تو آپ لوگ روک دیتے ہیں۔ بہرحال حضرت میاں صاحب کے مشورہ کی بنا پر وہ خط ممبران کانگرس کو دینا مناسب نہ سمجھا گیا۔

خلافت سے محبت اور فدائیت

جولائی 1976ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے امریکہ اور کینیڈا کا دورہ فرمایا جماعت ہائے احمدیہ امریکہ کے لئے یہ ایک تاریخی موقع تھا کہ خلیفہ وقت نے پہلی مرتبہ سر زمین امریکہ پر مبارک قدم رکھنے تھے اور اہل امریکہ کی دیرینہ دلی خواہش پوری ہونی تھی جس پر ہر احمدی فرط مسرت سے شاد ہو رہا تھا حضور کے شایان شان استقبال اور دورہ کے دیگر پروگرام مرتب کرنے کے لئے جماعتی میٹنگز ہو رہی تھیں جن میں حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب بھی شریک ہوتے اور اپنے قیمتی مشوروں سے نوازتے اس وقت آپ کی ہر بات اور قول سے مترشح ہو رہا تھا کہ آپ کو مقام خلافت کی اہمیت اور اس کے احترام کا کتنا خیال تھا اور خلافت سے آپ کی وابستگی اور خلیفہ وقت سے عقیدت اور محبت کس قدر آپ کے دل میں موجود تھی۔

چنانچہ حضور کے استقبال اور دورہ کے پروگرام کو مرتب کرنے میں آپ کی موجودگی ہمارے لئے بہت ہی ممدومعاون ثابت ہوئی اور سارے کام بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ سرانجام پائے۔ 25جولائی 1976ء کو جب حضور واشنگٹن ڈی سی کے ڈیلس ایر پورٹ پر اترے تو جماعت کے دیگر احباب کے ساتھ حضرت صاحبزادہ صاحب نے بھی نہایت ہی عقیدت مندانہ جذبات کے ساتھ اپنے پیارے امام کو اھلاً وسھلاً ومرحبا عرض کرنے کی سعادت حاصل کی۔

حضور کے قیام وطعام کا انتظام چونکہ حضرت صاحبزادہ صاحب کی رہائش گاہ پرہی تھا لہٰذا ایرپورٹ سے حضور مع اپنے قافلہ کے سیدھے آپ کے مکان پر تشریف لے گئے۔ امراء جماعت ہائے احمدیہ کی میٹنگز حضور کے ساتھ آپ کے مکان پر منعقد ہوتیں جن میں آپ بھی شریک ہوتے اور حضور کی قیادت میں امریکہ مشن کے استحکام، ترقی اور مشنوں اور بیوت الذکر کے قیام اور دعوت الی اللہ کے لئے بہت ہی مفید اور دوررس نتائج کی حامل تجاویز پاس کی گئیں اور خداتعالیٰ کے فضل سے حضور کا یہ دورہ بہت ہی کامیاب رہا۔ جس میں حضرت میاں صاحب کے مشوروں اور تعاون کا بہت دخل تھا۔

جماعتی عہدے داروں کا احترام

جماعت کے ادنیٰ خادم کی عزت واحترام کا بھی آپ کو بہت خیال تھا ایک دفعہ ایک اہم امر کے بارہ میں آپ سے فوری مشورہ کرنا تھا لہٰذا میں سیدھا ورلڈ بنک گیا اور آپ کی سیکرٹری سے اپنا تعارف کراتے ہوئے حضرت میاں صاحب سے ملنے کی خواہش ظاہر کی اس نے کہا کہ مسٹر احمدنے مجھے ہدایت دے رکھی ہے کہ جب بھی آپ انہیں ملنے آئیں تو آپ کو روکا نہ جائے بلکہ فوری طور پر اندر بھیج دیں۔ لہٰذا آپ اندر تشریف لے جائیں چنانچہ میں اندر گیا آپ نہایت خندہ پیشانی کے ساتھ ملے اور آنے کی وجہ دریافت کی میں نے معاملہ پیش کیا۔ توآپ نے نہایت ہی فہم وفراست پر مشتمل مشورہ دیا جس پر عمل کر کے بہت فائدہ ہوا۔

جب کبھی کوئی جماعتی اجلاس ہوتا یا جلسہ اور اجتماع ہوتا تو میں آپ کے مقام اور منصب کے لحاظ سے آپ سے صدارت کے لئے درخواست کرتا بعض دفعہ توآپ رضا مند ہو جاتے لیکن بعض دفعہ فرماتے مجھ سے تقریر بے شک کروالیا کریں لیکن صدارت کے لئے نہ کہا کریں۔ کیا عظمت تھی آپ کے کردار میں کیا بلند تھے آپ کے اخلاق، کیا تواضع اور انکسار تھا آپ کی طبیعت میں اللہ تعالیٰ آپ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ وبلند مقام عطا فرمائے۔ آمین

(الفضل 7ستمبر 2002ء)