مسلم نوجوانوں کے سنہری کارنامے

اطاعت امیر

صحابہ کرام کی زندگیوں میں ایک چیز ہمیں نہایت واضح نظر آتی ہے اوروہ یہ کہ وہ خلفاء اور امراء کی اطاعت سے کسی صورت میں بھی جی نہ چراتے تھے۔ اور اپنے علم و فضل کے باوجود ان کے ساتھ اختلاف کو گوارا نہ کرتے تھے۔ بلکہ ان کے پیچھے چل کر قومی وحدت کو برقرار رکھتے تھے اور یہی ایک چیز ہے جس نے اختلافات کے باوجود ان کے شیرازہ کو منتشرنہ ہونے دیا۔ اور من حیث القوم ان کو اس قدر مضبوط کر دیا تھا کہ اپنی کمی تعداد، غربت، بے بسی اور انتہائی کمزوری کے باوجود وہ بڑے بڑے طاقت ور دشمنوں کے مقابلہ میں کامیاب و کامران ہوتے تھے۔ اس ضمن میں چند ایک اہم واقعات پیش کیے جاتے ہیں۔

1

ایک دفعہ حضرت عمار نے حضرت عمر کے سامنے ایک حدیث بیان کی۔ حضرت عمر نے آپ کو ٹوکا۔ لیکن اپنی بات کامل وثوق کے باوجود انہوں نے امام وقت کے ساتھ اختلاف کی جرات نہیں کی۔ بلکہ نہایت پشیمانی کے ساتھ عرض کیا۔ یا امیر المومنین! اگر آپ فرمائیں تو آئندہ میں کبھی اس حدیث کی روایت نہ کروں گا۔

2

ایک دفعہ حضرت ابو موسیٰ اشعری نے حج کے متعلق لوگوں کو کوئی فتویٰ دیا۔ ایک شخص نے ان سے کہا کہ ابھی ٹھہر جائیے کیونکہ امیر المومنین حضرت عمرؓ نے اس کے متعلق کچھ اور بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ انہوں نے فوراً لوگوں سے کہا کہ میرے فتویٰ پر عمل نہ کرو۔ امیر المومنین تشریف لا رہے ہیں ان کی اقتداء کرو۔

3

ایک بار حضرت عثمان نے منیٰ میں چار رکعت نماز ادا کی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کو ان سے اختلاف تھا اور وہ کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ یہاں دو رکعتیں پڑھی ہیں۔ اور پھر حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ اور ان کے بعد حضرت عمرؓ کے ساتھ دو رکعتیں پڑھی ہیں۔ اس لیے میں تو چار رکعتوں پر دو کو ہی ترجیح دوں گا لیکن جب وقت آیا تو خود بھی چار رکعتیں ہی پڑھیں۔ لوگوں نے کہا کہ آپ تو اس مسئلہ میں حضرت عثمانؓ سے اختلاف رکھتے تھے اور اب خود بھی ان کی اقتداء کرتے ہیں۔ قول و فعل میں اس تفاوت کی کیا وجہ ہے تو انہوں نے جواب میں کہا کہ اختلاف بری چیز ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ حضرت عثمانؓ نے چونکہ ا س جگہ مکان بنالیا تھا۔ اس لیے آپ اپنے آپ کو مسافر کی حیثیت میں نہ سمجھتے تھے اس لیے قصرکی بجائے پوری نماز ادا کرنا ضروری خیال فرماتے تھے۔

4

حضرت عبداللہ بن عمرؓ اتباعِ سنت کا بہت خیال رکھتے تھے۔ اس لیے جب منی۔ میں تنہا نماز پڑھتے تو قصرکرتے تھے۔ لیکن جب امام کے ساتھ نماز کا اتفاق ہوتا تو چار رکعت ہی ادا فرماتے تھے۔ اور فرماتے کہ اختلاف سے بچنا چاہیے۔

5

ایک بار حضرت ابوبکرؓ ایک شخص پر بہت ناراض ہوئے۔ پاس ایک صحابی بیٹھے تھے۔ انہوں نے عرض کیا یا امیر المومنینؓ اگر ارشاد ہو تو اس کی گردن اڑا دوں۔ جب حضرت ابوبکرؓ کا غصہ فرو ہوا تو اس سے پوچھا کہ اگر میں کہتا تو کیا تم واقعی اس کو مار ڈالتے۔ انہوں نے جواب دیا یا امیرالمومنین ضرور ماردیتا۔

اس کے متعلق یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ یہ واقعہ اس زمانہ کے تمدن کے مطابق ہے اور اس کے اندراج سے مقصود صرف یہ بتانا ہے کہ صحابہ کرام کے نزدیک خلیفہ وقت کی خوشنودی اس قدر اہم چیز تھی کہ اس کی ناراضگی اور خفگی کے مورد کو وہ قابل گردن زدنی سمجھتے تھے۔ گو یہ ثابت نہیں کہ صرف اسی طرح اختلاف کے اظہار کرنے والے کو کبھی بھی سزا دی گئی۔ تاہم اس سے اس روح کا پتہ ضرو چلتا ہے جو ان لوگوں کے قلو ب میں موجو دتھی۔

یہ چند ایک واقعات صرف اس نقطہ نگاہ سے درج کیے گئے ہیں کہ بتایا جاسکے کہ دین متین کے وہ اولین حامل دینی امور میں خلفاء اور امراء کی آراء کے سامنے کس طرح اپنے علم و فضل کے خیال کو ترک کر کے بلاچون و چرا ان کے پیچھے ہو لیتے تھے۔ اور ان کے ساتھ کسی قسم کی بحث یا تکرار کا خیال بھی دل میں نہ لاتے تھے۔ اور دراصل جب تک یہ روح موجود نہ ہو اور ذاتی آراء کے ماتحت خلفاء کے ساتھ اختلافات کا دروازہ کھول دیا جائے تو خلافت کا منشاء کبھی بھی پورا نہیں ہوسکتا اور تسکین دین کا کام پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا۔

یہ امر نہایت ہی قابل افسوس ہے کہ بعض علماء کہلانے والے محض ذاتی عداوت و رقابت کی بناء پر آج حریت ضمیر اور مساوات اسلامی کا تقاضا یہی سمجھتے ہیں کہ خلیفہ وقت کے ساتھ کسی بارے میں کوئی اختلاف پیدا ہونے کی صورت میں اعلیٰ درجہ کا ایمان یہی ہے کہ فوراً اس پر اعتراض کر دیا جائے۔ اور اس کے لیے وہ سطحی خیالات اور معمولی علمیت رکھنے والے ایک دو لوگوں کی مثالیں پیش کرتے ہیں۔ جنہوں نے خلیفہ وقت کے متعلق کوئی اعتراض دل میں پیدا ہونے کی صورت میں برملا اور بھری مجلس میں اس کا اعلان ضروری سمجھا۔ اور یہ نہیں سوچتے کہ وہ لوگ دینی لحاظ سے کسی ممتاز اور نمایاں حیثیت کے مالک ہرگز نہ تھے۔

اس کے مقابلہ میں ہم نے جو مثالیں پیش کیں ہیں وہ جلیل القدر صحابہؓ کی ہیں۔ جو نہایت ارفع دینی مقام پر کھڑے تھے اور اس لیے انہی کے اسوہ کی تقلید ہمارے لیے کسی نفع کا موجب ہوسکتی ہے۔

ا سکے علاوہ صحابہ آنحضرتﷺ نیز خلفاء و امراء کے احکام کی تعمیل جس مستعدی اور سرگرمی کے ساتھ کرتے تھے اگرچہ وہ بھی اپنی شان میں بے نظیر ہے۔ لیکن اس جگہ اس کا ذکر ہم نے نہیں کیا۔ دوسرے عنوانات کی ذیل میں اس کی مثالیں آپ کو ضرور مل سکیں گے۔

آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد جب اسلامی مجاہدین مرتدین کی سرکوبی میں مصروف تھے تو حضرت خالد بن ولید سجاح بنت الحرث مدعیہ سے مقابلہ کر رہے تھے کہ میدان جنگ میں مالک بن نویرہ سے سامنا ہوا۔ اور حضرت خالد بن ولید کے حکم سے اسے قتل کر دیا گیا۔ یہ میدان جنگ کا ایک معمولی واقعہ ہے لیکن بعض مسلمانوں کی رائے تھی کہ مالک مسلمان تھا۔ اور اس کی بستی سے اذان کی آواز آئی تھی۔ اس لیے اس کا قتل ناجائز ہے۔ ایک صحابی حضرت ابوقتادہ نام حضرت خالد بن ولید کی فوج میں شامل تھے اور وہ بھی اسی رائے کے موید تھے کہ مالک مسلمان تھا اور اس کا قتل ناجائز ہے چنانچہ وہ اس قتل پر بہت برہم ہوئے اور اس پر ناراضگی کے طور پر بلا اجازت لشکر سے علیحدہ ہو کر مدینہ چلے آئے۔ اور یہاں آکر شکایت کی کہ خالد مسلمانوں کو قتل کرتے ہیں۔ مدینہ میں بعض اکابر صحابہ حتی کہ حضرت عمر بھی ابوقتادہ کے ہم خیال تھے۔ اور چاہتے تھے کہ حضرت خالد بن ولید سے قصاص لیا جانا چاہیے۔ حضرت ابوبکرؓ نے تمام حالات سنے او رفرمایا قطع نظر اس سے کہ خالد مجرم ہے یا نہیں۔ ابوقتادہ کے جرم میں کوئی شبہ نہیں کہ و ہ امیر فوج کے حکم اور اجازت کے بغیرواپس آگئے ہیں۔ اور حکم دیا کہ و ہ فوراً واپس جائیں اور حضرت خالد کے لشکر میں شامل ہو کر ان کے ہر ایک حکم کو بلا چون و چرا بجا لائیں۔ چنانچہ انہیں واپس جانا پڑا۔

اس واقعہ سے معلوم ہوتاہے کہ اطاعت امیر کس قدر ضروری چیز ہے اور امیر کے ساتھ اختلاف پیدا ہوجانے کی صورت میں بھی کسی کو اس کی اطاعت سے انحراف کی اجازت نہیں۔

افسوس کہ آج مسلمانوں میں اول تو کوئی امیر ہی نہیں اور ان کی پستی کی سب سے اہم ترین وجہ یہی ہے۔ لیکن اگر کسی کو امیر بنا بھی لیں تو اسکی اطاعت ان کے لیے محال ہے۔ احمدیوں کو اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے ایک نظام میں منسلک کر کے ایک واجب الاطاعت امام کے ماتحت کیا ہے۔ اور یہ ایک ایسی نعمت ہے جس پر وہ اللہ تعالی کا جتنا بھی شکر کریں کم ہے۔ لیکن انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ اس نعمت سے فائدہ اسی صورت میں اٹھایا جاسکتا ہے کہ بلا چون و چرا اطاعت امیر کی جائے۔

حوالہ جات

  1.  (ابوداؤد کتاب الطہارت)
  2.  (نسائی کتاب الحج)
  3.  (ابوداؤد کتاب المناسک)
  4.  (مسلم کتاب الصلوۃ)
  5.  (ابوداؤد کتاب الحدود)