مسلم نوجوانوں کے سنہری کارنامے

تعارف

(ازحضرت صاحبزادہ میرزا بشیر صاحب ایم۔ اے)

شیخ رحمت اللہ صاحب شاکر کی کتاب جس کا عنوان “مسلم نوجوانوں کے سنہری کارنامے” ہے اسوقت طبع ہو کر اشاعت کے لیے تیار کی جارہی ہے۔ شاکر صاحب نے مجھ سے خواہش کی کہ میں اس کتاب کے دیباچہ کے طور پر چند سطورلکھ کردوں جس کی تعمیل میں مَیں یہ حروف قلمبند کررہاہوں۔

شاکر صاحب نے جس موضوع پر قلم اٹھایا ہے وہ ایک عرصہ دراز سے بلکہ طالب علم کے زمانے سے میرے مدنظر تھا۔ مجھے خوب یاد ہے کہ جب یہ خاکسار سکول کی نہم اور دہم جماعت میں تعلیم پاتا تھا تو اس وقت ہمیں ایک انگریزی کی کتاب “گولڈن ڈیڈز” Golden Deedsپڑھائی جاتی تھی۔ جس میں مغربی بچوں اور نوجوانوں کے سنہری کارناموں کا ذکر درج تھا۔ مجھے اس کتاب کو پڑھ کر یہ خواہش پیدا ہوئی کہ ایک کتاب اردو میں مسلمان نوجوانوں کے کارناموں کے متعلق لکھی جائے جس میں مسلمان بچوں کے ایسے کارنامے درج کیے جائیں جو مسلمان نونہالوں کی تربیت کے علاوہ دوسری قوموں کے لیے بھی ایک عمدہ سبق ہوں۔ یہ خواہش طالب علمی کے زمانہ سے میرے دل میں قائم ہو چکی تھی۔ اس کے بعد جب میں نے اسلامی تاریخ کا مطالعہ کیا تو یہ خواہش اور بھی ترقی کر گئی کیونکہ میں نے دیکھا کہ جو کارنامے مسلمان نوجوانوں کے ہاتھ پر ظاہر ہو چکے ہیں وہ ایسے شاندار اور روح پرور ہیں کہ ان کے مقابلہ پر مسیحی نوجوانوں کے کارناموں کی کچھ بھی حیثیت نہیں۔ اور میں نے ارادہ کیا کہ جب بھی خدا توفیق دے گا میں اس کام کو کروں گا۔ مگر افسوس ہے کہ ایک لمبے عرصہ تک میری یہ خواہش عملی جامہ نہ پہن سکی۔ بالآخر گذشتہ سال اللہ تعالیٰ نے اس کی یہ تقریب پیدا کر دی کہ شیخ رحمت اللہ صاحب شاکر نے مجھ سے مشورہ پوچھا کہ میں آج کل رخصت کی وجہ سے فارغ ہوں۔ مجھے کوئی ایسا مضمون بتایا جائے جس پر مںک ایک مختصر کتاب لکھ کر اسلام اور احمدیت کی خدمت کر سکوں۔ اس پر میں نے شاکر صاحب کو اپنی یہ خواہش بتا کر یہ تحریک کی کہ وہ اس موضوع پر مطالعہ کر کے کتاب تیار کریں۔ اور میں نے چند ایسی کتابوں کے نام بھی بتادئیے جس سے وہ اس مضمون کی تیاری میں مدد لے سکتے تھے۔ اور انتخاب وغیرہ کے متعلق بھی مناسب مشورہ دیا۔ اور مجھے خوشی ہے کہ شاکر صاحب نے مطلوبہ کتاب کے تیار کرنے میں کافی محنت سے کام لے کر ایک اچھا مجموعہ تیار کرلیا ہے۔ میں نے اس سارے مجموعہ کو بالاستیعاب نہیں دیکھا مگر بعض حصے دیکھے ہیں۔ اور بعض جگہ مشورہ دے کر اصلاح بھی کروائی ہے۔ اور میں امید کرتا ہوں کہ انشاء اللہ یہ کتاب نوجوانوں کے لیے مفید ثابت ہوگی۔

یہ ایک فیصلہ شدہ بات ہے کہ کسی قوم کی مضبوطی اور ترقی میں اس کے نوجوانوں کا بہت بڑا ہاتھ ہوتا ہے اور یہ بھی ایک تسلیم شد ہ بات ہے کہ نوجوانوں کی تربیت کا ایک بڑا عمدہ ذریعہ سلف صالح کی روایات ہیں۔ جنہیں سن کر یا مطالعہ کر کے وہ اپنے اندر کام کی روح پیدا کرسکتے ہیں۔ تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ بعض مسلمان نوجوانوں نے انحضرت ﷺ کے زمانہ میں اور آپ کے بعد ایسے ایسے حیرت انگیز کارنامے سرانجام دیے ہیں کہ ان کا ذکر پڑھ کر بے اختیار تعریف نکلتی ہے اور ایمان تازہ ہوجاتا ہے۔ بعض چھوٹی چھوٹی عمر کے بچوں نے ایسی ایسی خدمات سرانجام دی ہیں کہ بڑے بڑے لوگ بھی ان میں ہاتھ ڈالتے ہوئے رکتے تھے۔

دراصل بچپن کازمانہ ایک بڑا ہی عجیب و غریب زمانہ ہوتا ہے جس میں ایک طرف تو نمو اورترقی کی طاقت اپنا کام کر رہی ہوتی ہے اور دوسری طرف خطرات سے ایک گونہ بے پروائی کا عالم ہوتا ہے۔ ایسے ماحول میں اگر انسان کے ذہن کو ایک اچھے راستہ پر ڈال دیا جائے تو وہ حقیقتاً حیرت انگیز کام کرسکتا ہے اور اس ذہنی کیفیت کے پیدا کرنے کے لیے ایک طرف تو ایمان اور اخلاص کی ضرورت ہوتی ہے اور دوسری طرف عملی نمونہ کی۔

پس میں امید کرتا ہوں کہ جب ہمارے نوجوان سلف صالح کے کارناموں کا مطالعہ کریں گے اور انہیں اس بات پر آگاہی حاصل ہو گی کہ اسلام کے ابتدائی زمانہ میں انحضرت ﷺ اور آپ کے خلفاء کی قوت قدسیہ کے ماتحت مسلمان بچے کیاکیا خدمات بجا لاتے رہے ہیں تو چونکہ خدا کے فضل سے ہماری جماعت میں ایمان اور اخلاص پہلے سے موجود ہے۔ وہ اس عملی نمونہ کو دیکھ کر اپنے اندر ایک حیرت انگیز عملی تبدیلی پیدا کرسکیں گے۔

روایات کا قومی اخلاق پر اتنا گہرا اثر ہوتا ہے کہ بعض محقیقن نے تو قوم کے لفظ کی تعریف ہی یہ کی ہے کہ روایات کے مجموعہ کا نام ہی قوم ہے۔ اور اس میں شبہ نہیں کہ ایک قوم کو دوسری قوم سے ممتاز کرنے والی زیادہ تر قومی روایات ہی ہوتی ہیں۔ مگر روایات کو محض قصہ کے رنگ میں نہیں لینا چاہیے۔ بلکہ ان کی تحریکی قوت سے فائدہ اٹھانا چاہیے تاکہ گذشتہ تاریخ ہماری آئندہ عمارت کے لیے بنیاد کا کام دے سکے۔

میں ا س مختصر تمہید کے ساتھ اس مجموعہ کو اپنے عزیز نوجوانوں کے سامنے پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ وہ اس سے پورا پورا فائدہ اٹھائیں گے۔ میں یہ بھی امیدکرتا ہوں کہ شاکر صاحب اس کتاب کے آئندہ ایڈیشن میں احمدی نوجوانوں کے کارناموں کو بھی شامل کرلیں گے کیونکہ ان میں بھی انسان کو بہت روح پرورنظارے ملتے ہیں۔

والسلام
خاکسار

مرزا بشیر احمد

قادیان۔ یکم اپریل 1939ء