مسلم نوجوانوں کے سنہری کارنامے

پاس فرَمانِ نبویؐ

1

ایک صحابی حضرت سعد الاسود سیاہ رنگ اور کم رو تھے۔ ان کی شکل و شباہت ان کی شادی میں روک تھی۔ اور ان کی ظاہری بدصورتی کی وجہ سے کوئی شخص ان کے ساتھ اپنی لڑکی کے رشتہ پر رضامند نہ ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ انہوں نے آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیاکہ یا رسول اللہ کوئی شخص مجھے اپنی لڑکی کا رشتہ دینے کے لیے تیار نہیں۔ کیونکہ میری ظاہری شکل و صورت اور رنگ ڈھنگ اچھا نہیں۔ عمروبن وہب قبیلہ بنوثقیف کے ایک نومسلم تھے۔ جن کی طبیعت میں درشتی تھی۔ آنحضرتﷺ نے حضرت سعد سے فرمایا کہ ان کے دروازہ پر جاکر دستک دو۔ اوربعد اسلام کہو کہ نبی اللہ (ﷺ) نے تمہاری لڑکی کا رشتہ میرے ساتھ تجویز کیا ہے۔ عمربن وہیب کی لڑکی شکل و صورت کے علاوہ دماغی اور ذہنی لحاظ سے بھی نمایاں حیثیت رکھتی تھی۔ حضرت سعد ان کے مکان پر پہنچے اور جس طرح آنحضرتﷺ نے فرمایا اسی طرح کہا۔ عمروبن وہیب نے یہ بات سنی تو آپ کے ساتھ سختی سے پیش آئے۔ اور اس تجویز کو ماننے سے انکار کردیا لیکن بات یہیں پر ختم نہںا ہوجاتی بلکہ آگے جو کچھ ہوا وہ اس قدر ایمان پرور بات ہے کہ تمام مذاہب و ملل کی تاریخ اس کی کوئی مثال پیش نہیں کرسکتی۔ خود لڑکی اندر یہ ساری گفتگو سن رہی تھی۔ اس کے باپ نے حضرت سعد کو جو جواب دیا اسے سن کر وہ تو واپس آگئے۔ اور اسکے سوا اور کر بھی کیا سکتے تھے۔ لیکن لڑکی خود باہر نکل آئی۔ حضرت سعد کو آواز دے کر واپس بلایا اور کہا کہ جب رسول اللہ (ﷺ) نے میرے ساتھ آپ کی شادی کی تجویز کی ہے تو پھر اس میں چون و چرا کی کیا گنجائش باقی رہ سکتی ہے۔ یہ تجویز مجھے بسر وچشم منظور ہے اور میں اس چیز پر بخوشی رضامند ہوں۔ جو خدا اور اس کے رسول کو پسند ہے اور ایمانی جرات سے کام لے کر باپ سے کہا کہ آپ نے آنحضرتﷺ کی تجویز سے اختلاف کرکے بہت غلطی کی ہے اور بہت بڑے گناہ کا ارتکاب کیا ہے اورقبل اس کے کہ وحی الہیٰ آپ کو رسوا کردے اپنی نجات کی فکر کیجئے۔ لڑکی کی اس ایمان افروز تقریر کا اس کے باپ پر بھی خاطر خواہ اثر ہوا۔ ان کو اپنی غلطی کا پوری طرح احسا س ہوگیا۔ فوراً بھاگے ہوئے دربار نبوی میں پہنچے اور کہا یا رسول اللہ مجھ سے بہت بڑی خطا سرزد ہوئی۔ مجھے سعد کی بات کا یقین نہ آیا تھا۔ اور میں نے خیال کیا کہ وہ یونہی یہ بات کہہ رہے ہیں۔ اس لیے انکار کیا مگراب مجھے اپنی غلطی کا احساس ہو چکا ہے۔ اور صدق دل سے معافی کا خواستگار ہوں۔ میں نے اپنی لڑکی سعد سے بیاہ دی۔

2

حضرت جلیب بھی حضرت سعدکی طرح ظاہری طور پر اچھی شکل و صورت کے مالک نہ تھے۔ آنحضرتﷺ نے انصار کے ایک معزز گھرانے کی لڑکی کے ساتھ ان کا رشتہ تجویز کیا۔ مگر لڑکی کے ماں باپ کو اس پر اعتراض تھا۔ لڑکی کو اس کا علم ہواتو قرآن کریم کی یہ آیت پڑھی۔ ماکان لمومن ولا مومنۃ اذا قضیٰ اللہ و رسولہ امرا ان یکون لھم الخیرۃ من امرھم۔ یعنی جب اللہ اور اس کا رسول کسی بات کا فیصلہ کردیں تو کسی مسلمان کو اس میں چون وچرا کی گنجائش نہ ہونی چاہیے۔ اور اس صریح حکم خداوندی کے ہوتے ہوئے میں حیران ہوں کہ آپ اس تجویز کے کیوں مخالف ہیں۔ میں اس رشتہ پر رضامند ہوں۔ جو مرضی رسول کریمﷺ کی ہے وہی میری ہے۔ رسول کریمﷺ کو اس بات کا علم ہوا تو بہت مسرور ہوئے۔

3

آنحضرتﷺ ایک دفعہ مسجد نبوی میں خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ دوران خطبہ میں آپ نے فرمایا کہ اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ جاؤ۔ حضرت عبداللہ بن رواحہ ابھی مسجد سے باہر ہی تھے کہ حضور کا یہ ارشادکان میں پڑا۔ ان الفاظ میں گویا ایک جادو تھا اور اپنے محبوب کی آواز میں اس قدر شوکت تھی کہ پاؤں نے آگے قدم اٹھانے سے انکار کردیا۔ یوں معلوم ہوا کہ گویا کسی نے بریک لگا دی۔ آپ حالت بے اختیار میں وہیں بیٹھ گئے۔ اور اتنی بھی جرات نہ کرسکے کہ مسجد میں پہنچ لیں اور تو اس حکم کی تعمیل کریں۔

4

حضرت طلحہ بن البراء آغاز شباب میں اسلام لائے۔ تو آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ مجھے جو حکم چاہیں دیں میں اس کی بسر و چشم تعمیل کروں گا۔ آپ نے فرمایا۔ جاؤ اور اپنے باپ کو قتل کردو۔ وہاں کیا دیر تھی ایمان کی حرارت جسم کے رگ و ریشہ میں ایسی سرائت کر چکی تھی کہ اس نے تمام دنیوی محبتوں کو سرد کر دیا تھا۔ اور آنحضرتﷺ کی محبت دل و دماغ میں اس قدر غالب آچکی تھی کہ سب تعلقات اس کے سامنے ہیچ نظر آتے تھے۔ فوراً تلوار سنبھالی اور تعمیل ارشاد کے لیے روانہ ہوئے۔ آنحضرتﷺ نے یہ فداکاری دیکھی تو واپس بلایا اور فرمایا۔ میں قطع رحم کے لیے نہیں آیا ہوں۔

5

صحابہ آنحضرتﷺ کے ہر حکم کی تعمیل کے لیے کس طرح بدل و جان ہر وقت تیار رہتے تھے۔ اسے اپنی نجات کا ذریعہ سمجھتے اور اس کے مقابل پر نفسانی میلانات و رجحانات کو یکسر نظر انداز کردیتے تھے۔ اس کی ایک مثال ملاحظہ فرمائیے۔ آنحضرتﷺ کے ہاں ایک کنیز ام ایمن نام تھیں۔ آپ ان پر بہت خوش تھے۔ اور ان کو اماں کہہ کر مخاطب فرمایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ حضور نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص کسی جنتی عورت سے شادی کرنا چاہے توام ایمن سے کرے۔ حضرت زید بن حارثہ نے یہ بات سنی تو فوراً ان کے ساتھ نکاح کرلیا۔ مشہور صحابی اسامہ جو آنحضرتﷺ کو بہت محبوب تھے انہی کے بطن سے تھے۔

6

آنحضرتﷺ نے مدینہ کو بھی مکہ کی طرح حرام قرار دیا۔ اور فرمایا تھا کہ مدینہ کے ارد گرد کی نہ گھاس کاٹی جاسکتی ہے نہ جانوروں کا شکار جائز ہے اور نہ پرندے پکڑنے کی اجازت۔ صحابہ کرام اس ارشاد کا بہت خیال رکھتے تھے۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ فرمایا کرتے تھے کہ مدینہ میں چرنے والے ہرنوں کو بدکانے کی بھی میں جرات نہیں کرسکتا۔ ؂۶

7

ایک دن ایک بچہ نے کسی پرندہ کا شکار کیا تو حضرت عبادہ بن الصامت نے اسے دیکھ کر پرندہ کو اس سے چھین کر چھوڑ دیا۔

8

حضرت سعد بن ابی وقاص نے ایک مرتبہ کسی غلام کو مدینہ میں شکار کرتے دیکھ لیا تو اس کے کپڑے چھین لیے اورکہا کہ آنحضرتﷺ کے ارشاد کے خلاف مدینہ کی حدود میں شکار کرنے کی یہی سزا ہونی چاہیے۔

حوالہ جات

  1.  (اسد الغابہ ج2 ص202)
  2.  (سیرانصار ج 1 ص274)
  3.  (اصابہ ج3 ص462)
  4.  (اصابہ ج3 ص426)
  5.  (اسد الغابہ ج2 ص140تا142)
  6.  (مسلم کتاب الحج)
  7.  (مسند احمد ج5ص 317)
  8.  (ابو داؤد کتاب المناسک)