مسلم نوجوانوں کے سنہری کارنامے

راست گفتاری اور صاف گوئی

صحابہ کرام راستی اور صدق بیانی کے پیکر اور سچائی و راستبازی کی جیتی جاگتی تصویریں تھے۔ عام حالات و اقعات میں ان کی راست بیانی کا تذکرہ گویا ان کے مقام صدق کی توہین ہے۔ دنیا کا کوئی بڑے سے بڑا نقصان اور خوفناک سے خوفناک سزا کاخوف بھی ان کو جادہ صداقت سے منحرف نہیں کرسکتا تھا۔ وہ اپنی جان پر کھیل جاتے لیکن کیا مجال کہ کوئی خلاف واقعہ حرف زبان پر لائیں۔ اور روحانی لحاظ سے کوئی نمایاں مقام رکھنے والے تو درکنار ان کے کمزور بھی غلط بیانی کی جرات نہ کرسکتے تھے۔ حتی کہ اگر کسی سے بتقاضائے بشریت کوئی غلطی بھی سرزد ہوجاتی تو وہ سزاکے خوف یا عقوبت کے خیال سے اسے چھپانے کا وہم بھی دل میں نہ لاسکتے تھے۔ بلکہ عواقب سے بالکل بے نیاز ہو کر صاف صاف اقرار کرلیتے تھے۔ چند ایمان پرور اور روح افزا واقعات ملاحظہ ہوں۔

1

فتح مکہ کے بعد جب آنحضرتﷺ نے مال غنیمت تقسیم کیا تو مصلحت و منشائے الہی کے ماتحت اس میں قریش کے ساتھ ترجیحی سلوک روا رکھا۔ ہر شخص کی نظر معاملات کی تمام باریکیوں تک نہیں پہنچ سکتی۔ اور ہر شخص معرفت کے اس مقام پر پہنچا ہوا نہیں ہوتا کہ اس کی آنکھ مخفی در مخفی اور باریک در باریک حکمتوں کو دیکھنے کی اہلیت رکھتی ہو۔ رسول کریم ﷺکے حقیقی مقام کی معرفت رکھنے والے اس ترجیح پر معترض ہونا تو درکنار اگر حضور سب کچھ بھی کسی خاص گروہ کے سپرد کر دیتے تو انہیں کوئی اعتراض نہ ہوتا۔ لیکن ایک حقیقت ناشناس اور کم فہم انصاری نے اس پر معترضانہ رنگ میں نکتہ چینی کی۔ آنحضرتﷺ کو اسکا علم ہوا تو آپ کو تکلیف ہوئی۔ آپ نے انصار کو طلب فرمایا اور اس کے متعلق دریافت فرمایا۔ انصار نے اپنے آدمی کی اس نادانی پرکوئی پردہ ڈالنے اور تاویلات سے کام لے کر اس کے جرم کو چھپانے کی قطعاً کوئی کوشش نہیں کی بلکہ من و عن صحیح صحیح بات بیان کردی۔ اور اس پر کوئی پردہ نہںی ڈالا پھر اس کے ساتھ اپنی پوزیشن کو نہایت خوبصورتی کے ساتھ واضح کرتے ہوئے کہاکہ یہ ایک نادان کی نادانی اور کم فہمی ہے ورنہ ہمارے دلوں میں ایسا کوئی خیال قطعاً نہیں۔

2

غزوہ تبوک میں حضرت کعب بن مالک شریک نہ ہوئے تھے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ ان کے پاس اپنی اس غفلت کے لیے کوئی صحیح عذر بھی نہ تھا۔ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ ان سے سراسر کوتاہی ہوئی۔ واپسی پر آنحضرتﷺ نے اس کا سبب دریافت فرمایا۔ انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ اس غفلت کی سزا انہیں ضرور مل کر رہے گی۔ لیکن سزا کے خوف سے انہوں نے ادھر ادھر کی باتوں سے اپنی غفلت پر پردہ ڈالنے کی قطعاً کوشش نہیں کی اور کسی بہانہ سازی سے کام لینے کاخیال تک نہ کیا بلکہ صاف الفاظ میں اپنی غلطی کا اِقرار کرلیا۔

3

حضرت ماعز بن مالک ایک نوجوان صحابی تھے۔ انسان خطا و نسیان کا پتلاہے۔ اور شیطان اسے جادہ صراط سے منحرف کرنے کے لیے اس طرح اس کی تاک میں لگا رہتا ہے کہ ہر وقت اس سے خطا کے صدور کا امکان ہے۔ چنانچہ و ہ بھی اس بہکانے میں آگئے۔ ایک دفعہ ان سے زناء کی لغزش سرزد ہوئی۔ یہ کوئی معمولی لغزش نہ تھی اور شریعت اسلامی میں اس کی سزا سے و ہ ناواقف بھی نہ تھے۔ لیکن صحابہ کرام اپنی خطا کی سزا اس دنیا میں برداشت کرلیناخداتعالیٰ کے حضور گنہگار ہونے کی حیثیت میں جانا بہت زیادہ آسان سمجھتے تھے۔ چنانچہ بعد میں انہیں جب اپنی غلطی کا احساس ہواتو دامن صبر قرار ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ غفلت کا پردہ اٹھتے ہی اللہ تعالیٰ کا رعب ایسا طاری ہوا کہ بے چین ہوگئے اور بے تاب ہو کر آنحضرتﷺ کی خدمت میں پہنچے۔ اور عرض کیا یا رسول اللہ مجھے پاک کیجئے۔ لیکن آنحضرتﷺ نے چشم پوشی سے کام لیا اور فرمایا جاؤ خدا تعالیٰ سے مغفرت چاہو اور اس کے حضور توبہ کرو۔ ماعزیہ جواب سن کر لوٹے مگر جو لغزش ہو چکی تھی اس نے اطمینان قلب ختم کر دیا تھا۔ طبیعت پر اس کا اس قدربوجھ تھا کہ جلد از جلد اس کو دور کرنا چاہتے تھے۔ دل کو سکون نہ تھا۔ ارشاد کی تعمیل میں واپس تو ہوگئے لیکن تھوڑی دور جاکر پھر واپس آئے۔ اور پھر دل کی بیتابی سے مجبو ر ہو کر عرض کیا یارسول اللہ مجھے پاک کیجئے۔ آپ نے پھر چشم پوشی فرمائی اور پھر یہی جواب دیا کہ جاؤ خدا تعالیٰ سے مغفرت طلب کرو۔ اور اسی کے حضور توبہ کرو۔

یہ ارشاد سن کر آپ لوٹنے کو تو پھر لوٹ گئے مگر قلبی کیفیت نے بالکل بے بس کر رکھا تھا۔ قدم اٹھائے آگے کو اور پڑتا پیچھے کی طرف تھا۔ بس ایک ہی خیال دل میں جاگزیں تھا کہ جس طرح بھی ممکن ہو اس گند اور فسق و فجور کی آلائش سے اپنا دامن پاک کریں۔ اس لیے چند قدم جانے کے بعد پھر ایک وارختگی کے عالم میں واپس ہوئے اور پھر یہی درخواست کی یا رسول اللہ مجھے پاک کیجئے۔ اس پر آپ نے فرمایا تم کس چیز سے پاک ہونا چاہتے ہو۔ ماعز نے نہایت ندامت اور شرمساری کے لہجہ میں عرض کیا زنا کی گندگی سے۔ ان کی یہ صاف بیانی اور رضاکارانہ اقبال جرم کو دیکھ کر آنحضرتﷺ کو بھی حیرت ہوئی۔ اور آپ نے لوگوں سے پوچھا یہ شخص مجنون تو نہیں۔ اور اس کی یہ باتیں کسی دماغی عارضہ کا نتیجہ تو نہیں۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ نہیں۔ اس کی دماغی حالت بالکل درست ہے۔ لیکن آپ شرعی حدود قائم کرنے سے قبل چونکہ تمام پہلوؤں کو اچھی طرح معلوم کرنا ضروری سمجھتے تھے اس لیے پھر فرمایا کہ اس نے شراب تو نہیں پی ہوئی۔ ایک شخص نے قریب جاکر منہ سونگھا۔ تو معلوم ہوا کہ ایسا نہیں اور منہ سے شراب کی بو نہیں آتی تھی۔ اس پر آنحضرتﷺ نے پھر فرمایا۔ ماعز کیا تم نے واقعی زنا کیا۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں یا رسول اللہ واقعی مجھ سے یہ خطا سرزد ہوئی۔ اس پر آپ نے سنگساری کا حکم دیا۔ حضرت عمر نے ان کے متعلق فرمایا ہے کہ انہوں نے خدا کی ستاری کی پرواہ نہیں کی۔ اس لیے انہیں شریعت کی ظاہری سزا بھگتنی پڑی۔ اگر وہ توبہ اور استغفار کرتے تو اللہ تعالیٰ ستار ہے۔ ان کی سچی توبہ پر ویسے بھی بخش دیتا اور انہیں اس سزا سے بھی بچا لیتا۔

4

مریسیع کے مقام پر عبداللہ بن ابی نے آنحضرتﷺ کی شان میں جو ناپاک الفاظ استعمال کیے ان کا ذکر اور ا س سلسلہ میں خود اس کے لڑکے کی غیرت ایمانی کا ذکر شرح و بسط کے ساتھ پہلے گزرچکا ہے۔ اس کے یہ ناپاک الفاظ ایک بچہ زید بن ارقم نے سنے تو بے تاب ہوگیااور فوراً اپنے چچا کی وساطت سے آنحضرتﷺ کو خبر کی۔ آ پ نے عبداللہ بن ابی سے پوچھا لیکن وہ چونکہ مرض نفاق میں مبتلا اور حقیقی ایمان سے محروم تھا۔ اس نے انکار کردیا اور اس کے ساتھیوں نے بھی جو اس کی طرح مرض نفاق کے مریض تھے قسمیں کھا کھا کر اس کی تصدیق کی۔ آنحضرتﷺ نے حکم خداوندی کے مطابق حسن ظنی سے کام لیا۔ اور ان کے بیانات کو صحیح سمجھ کر حضرت زید کی بات کو رد کردیا۔ لیکن بعد میں وحی الٰہی نے زیدکی بات کی تصدیق کردی اور اس طرح اس مومن بچہ کے دامن کو اس غلط بیانی کی آلائش سے پاک کرنے کے لیے اپنے رسول کو براہ راست اس کی سچائی کی اطلاع دی۔

5

حضرت معاذ بن جبل نہایت متقی نوجوان اور اسلامی اخلاق و محاسن کے پیکر تھے۔ راست گوئی کایہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ انہوں نے آنحضرتﷺ کے متعلق کوئی بات بیان کی۔ حضرت انس نے جاکر آنحضرتﷺ سے اس کی تصدیق چاہی تو آپ نے فرمایا صدق معاذ، صدق معاذ، صدق معاذ اور اس طرح اپنے ایک صحابی کی راست بیانی کی تصدیق پورے زور کے ساتھ فرمائی۔

6

حضرت عبدالرحمن بن عوف نے قریباً تیس سال کی عمر میں سلام قبول کیا تھا۔ لیکن تقویٰ و طہارت اور صدق و صفا میں اس قدر بڑھے ہوئے تھے کہ صحابہ کرام کو ان کی صداقت پر کامل اعتماد تھا۔ حتیٰ کہ وہ کسی تنازعہ کی صورت میں خواہ مدعی ہوتے یا مدعا علیہ صرف ان کے بیان کو ہی کافی سمجھتے تھے۔

7

دین کے معاملہ میں صحابہ کرام نازک سے نازک دنیوی تعلقات کی ذرہ بھر پرواہ نہ کرتے تھے۔ اور تمام عواقب سے بے نیاز ہو کر سچی بات کہہ دیتے تھے۔ چنانچہ ایک کمزور مسلمان قدامہ بن مظعون سے ایک مرتبہ ایسی لغزش سرزدہوئی کہ شراب پی لی۔ حضرت عمر کو اطلاع ہوئی تو آپ نے قدامہ کے لیے شرعی سزا تجویز کی۔ لیکن معلوم ہے اس کیس میں شاہد کون تھا۔ اور کس کی شہادت پر اسے یہ سزا ہوئی۔ خود مظعون کی بیوی نے اپنے خاوند کے خلاف شہادت دی اور اس کی شہادت کی بناء پر ملزم کو سزا دی گئی۔

مندرجہ بالا واقعات میں صحابہ میں سے بعض کی لغزشوں کا ذکر آیا ہے۔ اس سے کسی کو کوئی غلط فہمی نہ ہونی چاہیے۔ ایسے واقعات معدودے چند ہیں جن میں کسی صحابی کا کسی نہ کسی وجہ سے لغزش کھا جانا ثابت ہوتاہے۔ ورنہ وہ لوگ پاکبازی اور تقویٰ کے اس قدر بلند مقام پر فائز تھے کہ ان سے ایسے افعال کے صدور کا امکان بھی نہ تھا۔ تاریخ عرب سے ادنیٰ واقفیت رکھنے والے بھی اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ ہیں کہ اس ملک میں شراب خوری اور زناکاری کا رواج بہت عام تھا۔ اور اہل عرب شب و روز انہی مشاغل میں مصروف رہتے تھے۔ اسلام نے آکر ان برائیوں کو حرام قرار دے دیا اور صحابہ کرام نے اپنی عمر بھر کی عادات کے باوجود ان احکام کی اس قدر شدت کے ساتھ پابندی کی کہ کسی اور قوم کی تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصرہے۔ اور ایسے عادی لوگوں میں سے کسی ایک کے پاؤں میں کبھی لغزش کا آجانا کوئی ایسی بات نہیں جس کی بناء پر صحابہ کرام کی قومی بزرگی اور پاکبازی پر کوئی اعتراض جائز ہوسکے۔ اور کلی طور پر گناہوں سے معصوم اورمحفوظ تو اللہ تعالیٰ کے انبیاء ہوتے ہیں۔ کمزور مومنوں سے کبھی عارضی طورپر لغزش کا ہوجانا ناممکن نہیں ہے۔ صحابہ میں سے اگرکسی سے ایسا ہو جاتا تو وہ فوراً توبہ کی طرف رجوع کرتے۔ اور خود اپنی غلطی اور قصور کا اعتراف کرکے اس کی ہر ممکن تلافی کرلیتے تھے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ ایسے واقعات سے اور پھر ایسی حرکات کے صدور پر ان پاکبازوں کی پشیمانی اقرار جرم اور اس کی سزا کو قبول کرنے کے لیے بے تابی ایک ایسی چیز ہے جو ایک انصاف پسند کی نظر میں ان کی وقعت بڑھا دیتی ہے۔

ان واقعات میں ایک اور خاص قابل غور اور قابل تقلید پہلو یہ ہے کہ صحابہ کرام اس دنیا کی سزا کو کوئی سزا نہیں سمجھتے تھے۔ ان کے قلوب پر مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے حضور گناہوں سے پاک ہو کر جانے کا خیال غالب تھا۔ وہ آخرت کی سزا کو اپنے لیے بالکل ناقابل برداشت سمجھتے تھے۔ اور اس لیے ان کی پوری کوشش یہ ہوتی تھی کہ جس طرح بھی ہو انہیں گناہوں کی سزا اسی دنیا میں مل جائے۔ تاکہ وہ خدا تعالیٰ کے حضور بالکل پاک ہو کر جائیں۔ لیکن ہمارے زمانہ کی حالت اس سے بالکل برعکس ہے۔ آج ہم میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو انتہائی کوشش کرتے ہیں کہ ان سے جو غلطی ہوئی ا سکی سزا سے جسطرح ہو سکے یہاں بچ جائیں اوراس بچاؤ کے لیے اگر اصل جرم کے علاوہ انہیں جھوٹ اور غلط بیانی وغیرہ دوسرے خطرناک جرائم کا بھی مرتکب ہونا پڑے تو وہ اس کی پرواہ نہیں کرتے۔ اور اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ کیفیت دراصل خدا تعالیٰ پر کامل ایمان نہ ہونے کا نتیجہ ہے۔ ورنہ جو شخص دل سے ایمان رکھتا ہے کہ ا س نے مرنا اور خدا تعالیٰ کے حضور پیش ہونا ہے۔ جہاں اسے اپنے دنیوی اعمال کے لیے لازماً جوا ب دہی کرنا پڑے گی۔ تووہ کبھی اس قدر جرات نہیں کرسکتا کہ کوئی خطا کرنے کے بعد پھر اس کی سزا سے بھی بچنے کی کوشش کرے۔ اور اس طرح اپنے لیے اپنے ہاتھ سے آخرت میں سزا کا موقعہ پیدا کرے۔

سچ یہی ہے کہ ایک ایسے انسان کے لیے جس کا دل نور ایمان سے منور ہو اس دنیا میں انتہائی سزا حتیٰ کہ جان دے دینے کی سزا بھی بہت معمولی اور حقیر ہے بجائے اس کے کہ وہ گنہگار ہونے کی حیثیت میں اپنے پیدا کرنے والے خدا کے دربار میں حاضر ہو۔ اور پھر کسی بداعمالی کی سزا میں عذاب دوزخ کا مستحق سمجھا جائے۔

حوالہ جات

  1.  (مسلم کتاب الزکوۃ)
  2.  (بخاری کتاب المغازی)
  3.  (مسلم کتاب الحدود)
  4.  (سیرت خاتم النبیین ص560)
  5.  (سیر انصار ج2 ص187)
  6.  (مسند احمد ج1 ص192)
  7.  (اصابہ ج 5 ص323)