مسلم نوجوانوں کے سنہری کارنامے

شوق تبلیغ

1

صحابہ کرامؓ نے سرور کائناتﷺ سے جو روحانی خزانہ حاصل کیا تھا۔ اس کو دوسروں تک پہنچانے کے لیے ہمیشہ بے تاب و بے قرار رہتے تھے۔ اور اس راہ میں تکلیف کی کوئی پرواہ نہ کرتے تھے۔ آنحضرتﷺ نے جب دعویٰ رسالت کیا تو حضرت عبداللہ بن مسعود ابھی کم سن تھے اور بکریاں چرایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ آنحضرتﷺ حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ اس طرف جانکلے جہاں آپ بکریاں چرا رہے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ نے ان سے کہا کہ لڑکے اگر تمہارے پاس دودھ ہو تو پلاؤ۔ مگر حضرت عبداللہ نے جواب دیا کہ یہ بکریاں کسی کی ہیں اس لیے میں آپ کو دودھ نہیں پلا سکتا۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا۔ اگر کوئی ایسی بکری ہو جس نے ابھی بچہ نہ جنا ہو تو اسے لاؤ۔ حضرت عبداللہ ایک بکری لے آئے۔ آپ نے اس کے تھنوں پر ہاتھ پھیر کر دعا مانگی تو اتنا دودھ اتر آیا کہ تینوں نے سیر ہو کر پیا۔ یہ معجزہ دیکھ کر حضرت عبداللہ کے دل پر اس قدر اثر ہوا کہ اسلام قبول کرلیا۔

یہ وہ زمانہ تھا جب مسلمان نہایت کمزور حالت میں تھے۔ حتی کہ علانیہ عبادت الہی بھی نہ کرسکتے تھے۔ ایک روز مسلمانوں نے جمع ہو کر مشورہ کیا کہ قریش کو قرآن کریم سنایا جائے لیکن یہ کام اس قدر مشکل تھا کہ اس کو سرانجام دینا سخت خطرناک تھا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ا س خدمت کے لیے اپنے آپ کو پیش کیا۔ لیکن دوسرے صحابہؓ نے کہا کہ آپ اس کام کے لیے موزوں نہیں ہیں۔ کوئی ایسا شخص چاہیے جس کا خاندان وسیع ہو تاکہ اس پر حملہ کرنے میں قریش کو کچھ تو تامل ہو۔ مگر حضرت عبداللہؓ نے کہا کہ نہیں مجھے جانے دو۔ میرا خدا میرا محافظ ہے۔

چنانچہ اگلے روز جب قریش کی مجلس لگی ہوئی تھی یہ شمع قرآنی کا پروانہ وہاں جا پہنچا اور تلاوت قرآن کریم شروع کردی۔ یہ دیکھ کر تمام مجمع مشتعل ہوگیا اور سب کے سب آپ پر ٹوٹ پڑے اور اس قدر مارا کہ چہرہ متورم ہوگیا۔ لیکن پھر آپ کی زبان بند نہ ہوئی اس سے فارغ ہو کر جب صحابہ میں واپس آئے تو آپکی حالت نہایت خستہ ہو رہی تھی۔ صحابہ نے کہا کہ ہم اس ڈر کی وجہ سے تمہیں جانے سے روکتے تھے۔ مگر حضرت عبداللہ نے کہا کہ خدا کی قسم اگر تم کہو تو کل پھر جاکر اسی طرح کروں گا۔ دشمنان خدا آج سے زیادہ مجھے کبھی ذلیل نظر نہیں آئے۔ ؂۱

2

شوق تبلیغ صرف مردوں تک ہی محدود نہ تھا بلکہ عورتیں بھی اس ضمن مںا اپنے فرض کو پورے احساس کے ساتھ ادا کرتی تھیں۔ ام شریک ایک صحابیہ تھیں جو مخفی طور پر قریش کی عورتوں میں جاکر تبلیغ کیاکرتی تھیں۔ حالانکہ یہ وہ زمانہ تھا کہ اسلام کا نام بھی زبان پر لانا خطرناک تھا۔ قریش کو ان کی تبلیغی مساعی کاعلم ہوا تو مکہ سے نکال دیا۔

3

حضرت عکرمہ بن ابی جہل فتح مکہ کے بعد بھاگ کر یمن چلے گئے تھے لیکن ان کی بیوی ام حکیم بنت الحارث مسلمان ہوگئیں اور اس نعمت سے متمع ہونے کے بعد اپنے خاوند کو بھی اس میں شریک کرنے کے لیے اس قدر بے تاب ہوئیں کہ صعوبات سفر برداشت کر کے یمن پہنچیں، اپنے خاوند کو تبلیغ کی اور مسلمان بنا کر واپس لائیں۔

4

حضرل ابو طلحہ ابھی مسلمان نہ ہوئے تھے کہ ایک مسلمہ حضرت ام سلیم کے ساتھ نکاح کے خواہاں ہوئے۔ ان کو پیغام بھیجا تو انہوں نے کہا کہ میرا نکاح تم سے نہیں ہوسکتا جب تک تم اسلام نہ قبول کرو۔ ہاں اگر مسلمان ہو جاؤ تو میں بخوشی نکاح کرلوں گی اور میرامہر بھی صرف تمہارا قبول اسلام ہی ہوگا۔ اس کے سواتم سے کچھ نہ مانگوں گی۔ چنانچہ وہ مسلمان ہوگئے۔

5

حضرت ابو ذرغفاری نہایت ابتدائی زمانہ میں اسلام لائے تھے۔ مکہ میں ان کا کوئی حامی اورمددگار نہ تھا۔ لیکن تبلیغ اسلام کا جوش اس قدرتھا کہ تمام خطرات سے بے نیاز ہو کر خانہ کعبہ میں آئے اورباآواز بلند اشہد ان الاالہ الااللہ و اشھد ان محمد رسول اللہ کہا۔ کفاء کی مجلس لگی ہوئی تھی۔ یہ آواز سنتے ہی ان پر ٹوٹ پڑے اور جوکچھ کسی کے ہاتھ میں آیا دے مارا۔ حتی کہ آپ بے ہوش کر گر پڑے۔ ہوش آیا توتمام بدن خون آلود تھا۔ اس وقت تو وہاں سے اٹھ کر چلے گئے لیکن اگلے روز پھر اسی طرح آکراسلام کا پیغام پہنچانے لگے اور کفار نے پھر اسی طرح مارنا پیٹنا شروع کردیا۔

6

حضرت ابوبکرؓ کا قلب جب نور اسلام سے منور ہوا تو اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو بھی اس نعمت سے فیض یاب کرنے کے لیے ان کے دل میں ایک خاص تڑپ تھی۔ آپ اسلام کی تبلیغ ان مشکلات کے باوجود جو قریش کی طرف سے درپیش تھیں برابر کرتے رہتے تھے۔ اور اس کے نتیجہ میں بعض ایسے بزرگ داخل اسلام ہوئے جو بعد میں افق اسلام پر ستارے بن کر چمکے۔ حضرت عثمان، حضرت زبیر بن العوم، حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت سعدبن ابی وقاص اور حضرت طلحہ، حضرت عثمان مظعون، حضرت ابو عبیدہ، حضرت ابو سلمہ، اور حضرت خالد بن سعید بن العاص آپ کی تبلیغ سے ہی دولت اسلام سے مالامال ہوئے۔

7

آنحضرتﷺ جب عرب کے مختلف قبائل اور عام اجتماعوں میں تبلیغ و ہدایت کا فرض سرانجام دینے کے لیے جاتے تو حضرت ابوبکرؓ آپ کے ساتھ رہتے تھے۔ اور چونکہ آپ کا حلقہ تعارف بہت وسیع تھا اس لیے آنحضرتﷺ کا تعارف بھی لوگوں سے کراتے تھے۔

حوالہ جات

  1.  (اسد الغابہ ج3 ص 280)
  2.  (ابن سعد ج8 زکر ام شریک)
  3.  (موطا کتاب النکاح)
  4.  (اسد الغابہ ج6زکر ام سلیم)
  5.  (بخاری کتاب المناقب )
  6.  (بخاری کتاب بنیان الکعبۃ)
  7.  (کنز العمال ج6 ص319)