مسلم نوجوانوں کے سنہری کارنامے

مہمان نوازی

ہمان نوازی انسانی اخلاق میں سے ایک بہترین خلق ہے۔ اور اسلام نے اس پر خاص زوردیا ہے۔ حتیٰ کہ رسول کریم ﷺنے فرمایا ہے کہ مہمان کا گھر میں آنا اللہ تعالیٰ کی رحمت کا نشان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مہمان نوازی صحابہ کرام کی زندگی کا ایک خاص جزو تھا۔ گو ان میں سے اکثر لوگ غریب اور ظاہری اسباب کے لحاظ سے بالکل نادار تھے لیکن ان کی غربت اور افلاس انہیں مہمان نوازی کے ثواب سے محروم نہیں رکھ سکتا تھا۔ تاریخ اسلام میں اس کی بے شمار مثالوں میں سے چند ایک درج ذیل ہیں۔

1

ایک مرتبہ ایک مہمان دربار نبوی میں آیا۔ چونکہ اس وقت کے لحاظ سے ایک شخص کی مہمان نوازی بھی آسان نہ تھی۔ اس لیے آنحضرتﷺ نے صحابہ کو تحریک فرمائی اور فرمایا کہ جو شخص اس کی مہمان نوازی کرے گا اللہ تعالیٰ اس پر رحم کرے گا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحم کی امید پر اپنے گھرمیں موجود سامان خوردونوش کا جائزہ لیے بغیر حضرت ابوطلحہ نے عرض کیا یا رسول اللہ میں ا س مہمان کو اپنے ساتھ گھر لے جاتا ہوں۔ چنانچہ اسے ساتھ لے گئے۔ گھر پہنچے تو بیوی سے معلوم ہوا کہ کھانے کو کچھ نہیں۔ صرف اتنا ہی کھانا ہے جو بچوں کے لیے بمشکل کفالت کرسکے گا۔ لیکن بیوی کی طرف سے مایوس کن اطلاع کے باوجود انہیں کوئی تشویش نہ ہوئی۔ اور جذبہ مہمان نوازی میں کوئی فرق نہ آیا۔ آپ نے بیوی سے کہا کہ زیادہ فکر تو بچوں کا ہی ہے لیکن ان کو پیار دلاسا دے کر بھوکا ہی سلا دو۔ لیکن ایک مشکل ابھی بھی باقی تھی اور وہ یہ کہ اس وقت کے رسم و رواج کے مطابق مہمان گھر والوں کو ساتھ شریک کرنے پر اصرار کریگا۔ کیونکہ اس وقت تک پردہ کے احکام ابھی نازل نہیں ہوئے تھے۔ اور ا سکا حل یہ سوچا گیا کہ جب میاں بیوی مہمان کے ساتھ کھانے پر بیٹھیں تو بیوی روشنی ٹھیک کرنے کے بہانہ سے چراغ گل کردے اور پھر دونوں ساتھ بیٹھ کر یونہی منہ مارتے رہیں۔ کہ گویاکھانا کھا رہے ہیں۔ لیکن دراصل کچھ نہ کھائیں اور اس طرح مہمان سیر ہو کر کھانا کھالے۔ چنانچہ ا س ایثار پیشہ خاندان نے ایسا ہی کیا۔ بچوں کو فاقہ سے بہلا کر سلا دیا گیا۔ بیوی نے روشنی بجھا دی اور میاں بیوی ساتھ بیٹھ کر یونہی مچاکے مارتے رہے کہ گویا بڑے مزے سے کھانا کھا رہے ہیں۔ اس طرح گھر کے سب لوگ تو فاقہ سے رہے اور مہمان نے سیر ہو کر کھانا کھالیا۔ اللہ تعالیٰ کو ان کی یہ ادا ایسی پسند آئی کہ رسول کریم ﷺ کو وحی کے ذریعہ اس کی خبر دی۔ چنانچہ صبح ہوئی تو آپ نے حضرت ابو طلحہ کو بلایا اور ہنستے ہوئے فرمایا کہ رات تم نے مہمان کے ساتھ کیا کیا۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا کیا۔ آ پ نے فرمایا جو کچھ تم نے کیا اسے دیکھ کر اللہ تعالیٰ عرش پر ہنسا اور اس لیے میں بھی ہنسا ہوں۔

احباب اس واقعہ پر غورکریں اور دیکھیں کہ یہ مہمان نوازی کتنی مشکل اور قربانی چاہتی ہے۔ اگرچہ خود بھوکا رہنا بھی آسان نہیں لیکن اگر خیال کرلیا جائے کہ روزہ رکھنے کے عادی لوگوں کے لیے ایک وقت کا فاقہ کاٹ لینا کوئی بڑی بات نہیں توکم سے کم یقینا یہ مانناپڑے گا کہ اپنے چھوٹے چھوٹے جگر گوشوں کو رضاکارانہ طور پر بھوکا رکھنا یقینا ایک ایسی بات ہے جو ثابت کرتی ہے کہ ہمارے یہ بزرگ مہمان نوازی کو کس قدر اہمیت دیتے تھے۔

2

صحابہ کی مہمان نوازی صرف مہمانوں تک ہی محدود نہ تھی بلکہ دشمن بھی اس سے محروم نہ تھے۔ یہاں تک کہ جنگ کے قیدیوں سے بھی یہی سلوک تھا۔ چنانچہ ایک شخص ابوعزیز بن عمیر جو جنگ بدر میں قید ہوئے تھے بیان کرتے ہیں کہ انصار مجھے تو پکی ہوئی روٹی دیتے تھے اور خود کھجوریں وغیرہ کھا کر گزارہ کرلیتے تھے۔ اور کئی دفعہ ایسا ہوتا کہ اگر ان کے پاس روٹی کا کوئی چھوٹا سا ٹکڑا بھی ہوتا تو وہ مجھے دے دیتے اور خود نہ کھاتے تھے اور اگر میں تامل کرتا تو اصرار کے ساتھ کھلاتے تھے۔

3

جن اسیران جنگ کے پاس کپڑا نہ ہوتا ان کو مسلمان کپڑے بھی مہیا کرتے تھے۔

“محمد ﷺ کی ہدایات کے ماتحت انصار و مہاجرین قیدیوں کے ساتھ بڑی محبت اور مہربانی کا سلوک کیا کرتے تھے۔ چنانچہ بعض قیدیوں کی اپنی شہادت ہے کہ خدا بھلا کرے مدینہ والوں کا وہ ہم کو سوار کرتے اور خود پیدل چلتے تھے۔ ہم کو گندم کی پکی ہوئی روٹی کھلاتے۔ اور خود کھجوریں وغیرہ کھا کر گزارہ کرلیتے تھے۔ ” (بحوالہ سیرت خاتم النبین صفحہ 155)

جن لوگوں کا جنگی قیدیوں کا ساتھ یہ سلوک تھا مہمانوں اور اپنے بھائی مہمانوں کے ساتھ ان کا برتاؤ اظہرمن الشمس ہے۔

4

ایک دفعہ بنی عذرہ کے تین مہمان مدینہ میں آئے۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ کون ان کی کفالت کا ذمہ لیتا ہے۔ حضرت طلحہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ میں۔ چنانچہ ان تینوں کو اپنے گھر لے گئے۔ اور پھر وہ جب تک زندہ رہے انہی کے ہاں رہے لیکن انہوں نے کبھی ان کو اپنے لیے بار تصور کر کے ان سے گلو خلاصی کی کوشش نہیں کی اور ایسے اخلاق سے ان کے ساتھ پیش آتے رہے کہ ان کو یہ احساس تک نہیں ہونے دیا کہ و ہ کسی اجنبی جگہ میں ہیں۔

5

حضرت عبداللہ بن مسعود مہمانوں کی خدمت سے حظ محسوس کرتے تھے اور آپ نے کوفہ میں ایک عالی شان مکان مہمانوں کے لیے مخصوص کر رکھا تھا۔

6

آنحضرتﷺ کی خدمت میں جو وفود آتے آپ ان کی مہمان نوازی کا فرض صحابہ کے سپرد کردیتے تھے۔ ایک مرتبہ قبیلہ عبدالقیس کے مسلمانوں کا وفد حاضرہوا۔ تو آپ نے انصار کو ان کی مہمان نوازی کا ارشاد فرمایا چنانچہ انصار ان لوگوں کو لے گئے۔ صبح کے وقت وہ لوگ حاضر ہوئے تو آپ نے دریافت فرمایا کہ تمہارے میزبانوں نے تمہاری مدارت کیسی کی۔ انہوں نے کہا یا رسول اللہ بڑے اچھے لوگ ہیں۔ ہمارے لیے نرم بستر بچھائے، عمدہ کھانے کھلائے اور پھر رات بھر کتاب و سنت کی تعلیم دیتے رہے۔

یہ بات سخت افسوس کے قابل ہے کہ اپنے بزرگوں کے ایسے شاندار اسوہ کے ہوتے ہوئے بھی آج مسلمانوں میں یہ وصف نمایاں نظر نہیں آتا۔ بے شک ان میں آج بھی مہمان نواز ہیں لیکن ایسے لوگ شاذ ہونے کی وجہ سے معدوم ہونے کے حکم میں ہیں۔ اور اس کمی کی وجہ جہاں تک سمجھ میں آتی ہے یہ ہے کہ ہمارا تمدن اسلامی سادگی کو کھو چکا ہے اور جو بے تکلفی اور سادگی اسلام کے ان شیدائیوں کی زندگیوں میں نظرآتی ہے وہ ہمارے اندر دکھائی نہیں دیتی۔ ہمیں وضعداریوں اور تکلفات نے ایسی بری طرح آگھیرا ہے کہ مہمان نوازی کے لیے اعلی سے اعلی سامان اور عمدہ سے عمدہ کھانوں کو ہم ضروری سمجھنے لگ گئے ہیں۔ اور یہ خیال کرتے ہیں کہ اگر مہمان کو اس سے بہت بڑھ کر کھانا پیش نہ کرسکے جو خود عام طور پر گھروں میں کھاتے ہیں تو اس سے سبکی ہوگی۔ اور وقار میں فرق آئے گا۔ اور اس قسم کے خیالات ایسی بری طرح ہمارے قلوب میں جاگزیں ہو چکے ہیں کہ مہمان نوازی کی سعادت سے محرومی کو گوارا کرلیں گے۔ اس کا کوئی قلق محسوس نہیں کریں گے لیکن یہ کبھی نہیں کریں گے کہ مہمان کے سامنے ماحضر لاکر رکھ دیں۔ اور اس طرح بغیر کوئی بوجھ برداشت کرنے کے ثواب بھی حاصل کرلیں۔ بے شک جو استطاعت رکھتا ہو اس کے لیے مہمان نوازی میں اہتمام بھی ثواب کا موجب ہے اور اسے چاہیے کہ مہمان کا اس رنگ میں بھی احترام کرے۔ لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہونے چاہئیں کہ اس کے بغیر مہمان نوازی ہی کرنی چھوڑ دی جائے۔ اگر ہمارے دوست اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کرلیں اور وضعداریوں اور تکلفات کی خود پیدا کردہ پابندیوں سے آزادی حاصل کرکے سادگی اور بے تکلفی کو راہ عمل بنالیں تو یقینا اگر ایک طرف وہ مہان نوازی کی توفیق پاکر ثواب حاصل کرسکیں گے تو دوسری طرف اس ثواب کے حصول کے لیے انہیں کوئی غیر معمولی اور زائد بوجھ بھی برداشت نہ کرنا پڑے گا۔

حوالہ جات

  1.  (مسلم ج۲ ص 198 ) ؟
  2.  (ابن ھشام زکر غزوۃ بدر)
  3.  (بخاری کتاب الجہاد)
  4.  (مسند احمد ج۱ ص163)
  5.  (تاریخ طبری ص 2842)
  6.  (مسند احمد ج3 ص432)