مسلم نوجوانوں کے سنہری کارنامے

دیانت اور امانت

دیانت اور امانت انسانی اخلاق کی بہت بڑی نیکیوں میں سے ایک نیکی ہے۔ آنحضرتﷺ کی زندگی کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ بعث سے قبل امانت آ پ کا طرہ امتیاز تھا۔ حتی کہ اپنے ہم وطنوں میں آپ الامین کے لقب سے پکارے جاتے تھے اور عرب میں آپ کی ذات ہی الصادق اور الامین کی مشار الیہ سمجھی جاتی تھی۔ آپ کی یہ خوبی ایسی تھی کہ غیر مسلموں پر بھی اس کا خاص اثر ہے۔ چنانچہ مسز اینی بیسنٹ جو ہندوستان میں تھیوسافیکل کی پیشوا اور بڑی مشہور یورپین لیڈی ہیں لکھتی ہیں۔

“پیغمبر اعظم ﷺ کی جس بات نے میرے دل میں ان کی عظمت و بزرگی قائم کی ہے وہ ان کی وہ صفت ہے جس نے ان کے ہم وطنوں سے الامین کا خطاب دلوایا۔ کوئی صفت اس سے بڑھ کر نہیں ہوسکتی۔ اور کوئی بات اس سے زیادہ مسلم اور غیر مسلم دونوں کے لیے قابل اتباع نہیں۔ ایک ذات جو مجسم صدق ہو اس کے اشرف ہونے میں کیا شک ہو سکتاہے۔ ایسا ہی شخص اس قابل ہے کہ پیغام حق کا حامل ہو”۔

آنحضرتﷺ کے فیض صحبت نے جہاں صحابہ کرام میں اور بے شمار خوبیاں پیدا کر دی تھیں وہاں دیانت و امانت میں بھی ان لوگوں کا پایہ بہت بلند کردیا تھا۔ چنانچہ سخت ابتلا کے مواقع پر بھی انکے پائے دیانت نے کبھی لغزش نہیں کھائی۔ چند واقعات بطور نمونہ ملاحظہ ہوں۔

1

ایک مرتبہ رومیوں کے ساتھ جنگ میں ایک نوجوان مجاہدکو ایک گھڑا ملا۔ جو کہ اشرفیوں سے پر تھا۔ وہ اگرچاہتے تو اسے اپنے لیے رکھ سکتے تھے لیکن ایسا نہیں کیا۔ بلکہ اسے اٹھا کر سالار جیش کی خدمت میں لے آئے۔ جنہوں نے اسے مسلمانوں میں بحصہ رسدی بانٹ دیا لیکن اس دیانت داری کا ان پر ایسا اثر تھا کہ کہا اگر اسلام کا یہ حکم نہ ہوتا کہ خمس سے پہلے کسی کو عطیہ نہیں دیا جاسکتا تو میں یہ اشرفیاں تمہیں دے دیتا۔ لیکن اب صرف یہ کرسکتا ہوں کہ اپنا حصہ تمہارے حوالہ کر دوں۔ سو یہ حاضر ہے لیکن ان کی بے نیازی ملاحظہ ہو کہ کہا مجھے اس کی ضرورت نہیں۔

2

حضرت ابی بن کعب کو ایک مرتبہ ایک تھیلی کہیں سے ملی۔ جس میں سو اشرفیاں تھیں لیکن اسے اپنے پاس رکھ لینے کا خیال تک ان کے دل میں نہ گزرا۔ اور اٹھا کر آنحضرتﷺ کی خدمت میں پہنچے۔ آپ نے فرمایا کہ ایک سال تک مالک کی جستجو میں اعلان کرتے رہو۔ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ لیکن ایک سال کے بعد پھر آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر عرض کیا کہ مالک نہیں ملا۔ آپ نے پھر ایسا ہی کرنے کا ارشادفرمایا۔ چنانچہ انہوں نے پھر ایک سال تک تلاش کیا۔ مگر کوئی دعویدار نہ ملا۔ تیسرے سال پھر حضور کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا تو آپ نے فرمایا کہ اپنے پاس رکھو۔ اگر مالک مل گیا تو خیر ورنہ خرچ کرلو۔

3

ایک مرتبہ حضرت سفیان بن عبداللہ ثقفی کو کسی کا توشہ دان کہیں سے ملا۔ جسے وہ حضرت عمرؓ کے پاس لے آئے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ ایک سال تک اعلان کرو۔ اگر مالک کا پتہ نہ چلے تو تمہارا ہے۔ جب سال گزرنے پر بھی مالک نہ ملا تو آپ پھر حضرت عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے فرمایا کہ اب یہ تمہارا ہے۔ مگر آپ نے کہا کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں اور اس وجہ سے حضرت عمرؓ نے اسے بیت المال میں داخل کر دیا۔

4

حضرت مقدادکسی باغ میں گئے تو دیکھا کہ ایک چوہابل سے اشرفیاں نکال کر باہر ڈال رہا ہے۔ جو تعداد میں اٹھارہ تھیں۔ آپ اٹھا کر آنحضرتﷺ کی خدمت میں لائے۔ آپ نے فرمایا کہ تم نے خود تو بل سے نہیں نکالیں۔ بولے نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ پھر خداتمہیں برکت دے۔ ؂۴

5

حضرت زبیرؓ کے پاس بوجہ ان کے امین ہونے کے لوگ اپنے مال امانت رکھ جاتے تھے۔ لیکن اس خیال سے کہ کہیں ضائع نہ ہو جائے آپ اسے اپنے اوپر قرض قرار دے لیتے تھے۔ متعدد صحابہ کامال ان کے پاس امانت رہتا تھا اور وہ اس قدر دیانت داری سے کام لیتے تھے کہ ان لوگوں کے اہل و عیال کے لیے بھی بوقت ضرورت اپنی جیب سے خرچ کردیتے تھے۔ لیکن ان کی امانت نہیں چھیڑتے تھے۔

6

ایک دفعہ ایک صحابی کی اونٹنی گم ہوگئی۔ تو انہوں نے ایک دوسرے صحابی سے کہا کہ اگر کہیں مل جائے تو پکڑ لینا۔ اتفاقاً انہیں اونٹنی مل گئی۔ لیکن اس کا مالک کہیں چلا گیا۔ انہوں نے اونٹنی کو بحفاظت تمام اپنے ہاں رکھا اور مالک کی تلاش کرتے رہے۔ مگر اسے نہ ملنا تھا نہ ملا۔ ایک روز اونٹنی سخت بیمار ہوگئی۔ بیوی نے اسے ذبح کر ڈالنے کا مشورہ دیا۔ گھر میں فاقہ کشی کی نوبت پہنچی ہوئی تھی۔ لیکن آپ کی امانت نے اسے ذبح کرناگوارا نہ کیا اور اونٹنی مر گئی۔

7

ایک صحابی کے پاس کسی کی امانت محفوظ تھی۔ لیکن مالک کہیں چلا گیا۔ وہ آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا واقعہ بیان کیا۔ آ پ نے فرمایا کہ جاؤ ایک سال تک تلاش کرو۔ چنانچہ انہوں نے پوری کوشش کی لیکن وہ نہ ملا۔ سال کے بعد پھر دربار رسالت میں حاضر ہوئے اورعرض کیا۔ کہ وہ نہیں ملا۔ تو آپ نے فرمایا پھر تلاش کرو۔ چنانچہ سال کے بعد پھر آکر کہا کہ وہ نہیں ملا۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ اس قبیلہ کا جو آدمی پہلے ملے اس کے حوالے کردو چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔

8

حضرت عقیل بن ابی طالب جنگ حنین کے بعد واپس آئے تو بیوی نے پوچھا کہ مال غنیمت میں کچھ لائے ہو یا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک سوئی کپڑے سینے کے لیے ہے۔ یہ کہہ کر سوئی بیوی کے حوالہ کر دی۔ اتنے میں منادی کرنے والے کی آواز آئی کہ جو کچھ مال غنیمت میں سے کسی کے پاس ہے وہ جمع کرادے۔ چنانچہ آپ نے فوراً سوئی بیوی سے لے لی اورجاکر جمع کرادی۔

9

فتح خیبر کے بعد آنحضرتﷺ نے وہاں کی زمینیں مقامی مزارعین کو بٹائی پر دے دی تھیں۔ جب فصل پک کر تیار ہوئی تو آپ نے ایک صحابی حضرت عبداللہ بن رواحہ کو پیداوار کا حصہ لینے کے لیے بھیجا۔ انہوں نے جاکر پیداوار کے دو حصے کر دئیے اور مزارعین سے کہا کہ ایک حصہ جو تمہیں پسند ہو تم لے لو۔ لیکن یہود اس سے زیادہ لینے کے خواہش مند تھے۔ انہوں نے اپنی عورتوں کے زیور جمع کیے اور بطور رشوت حضرت عبداللہؓ کو دینا چاہے تاکہ ان کے ساتھ رعایت کردیں۔ لیکن انہوں نے جواب دیا کہ اے یہود تم میرے نزدیک مبغوض ترین مخلوق ہو۔ لیکن یہ بغض مجھے تمہارے ساتھ کسی ناانصافی پرآمادہ نہیں کرسکتا۔ باقی رہا رشوت کا سوال تو یہ مال حرام ہے۔ اور مجھ سے یہ امید نہ رکھو کہ میں یہ کھانے کے لیے تیار ہوں گا۔

10

حضرت ابوبکرؓ بھی قبول اسلام کے وقت نوجوان تھے۔ رسول کریمﷺ نے 40 سال کی عمر میں دعویٰ رسالت کیا۔ اور آپ آنحضرتﷺ سے اڑھائی سال چھوٹے تھے۔ اسلام سے قبل آپ بہت بڑے تاجر تھے اور آپ کی دیانت وامانت مسلمہ تھی۔ قریش میں بہت عزت کے مالک تھے۔ ایام جہالت میں بھی خون بہا کی رقوم آپ کے پاس جمع ہوتی تھیں۔ اگر کسی دوسرے شخص کے پاس کوئی رقم جمع ہوتی تو قریش اس کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔

11

ایرانیوں کے ساتھ نبرد آزما ہونے اور فتوحات حاصل کرتے ہوئے جب مجاہدین اسلام نے نہاوند کے آتش کدہ کو ٹھنڈا کیا تو آتش کدہ کے ایک پجاری نے ایک صندوقچہ لاکر حضرت خذیفہ بن الیمان کے سپرد کیا جو بیش قیمت جواہرات سے بھراہواتھا اور جو اسکے پاس شاہی امانت کے طور پر تھا۔ یہ کوئی مال غنیمت نہ تھا بلکہ پرائیویٹ طور پر حاصل شدہ چیز تھی یا کم سے کم اگرکوئی شخص دیانت داری کی باریک راہوں کاخیال نہ رکھے تو وہ ایسے مال کو اپنے تصرف میں لانے کے لیے کئی تاویلیں کرسکتا ہے لیکن انہوں نے یہ سب کا سب قومی خزانہ میں داخل کر دیا۔

حوالہ جات

  1.  (ابو داؤد کتاب الجہاد)
  2.  (ابو داؤد کتاب اللقطۃ ) (بخاری کتاب اللقطۃ)
  3.  (دارمی کتاب البیوع)
  4.  (ابو داؤد کتاب الخراج)
  5.  (اصابہ ج2 ص460)
  6.  (ابو داؤد کتاب الاطعمۃ)
  7.  (ابو داؤد کتاب الفرائض)
  8.  (اسد الغابہ زیر لفظ فاطمہ بنت سودہ)
  9.  (موطا کتاب المساقاۃ)
  10.  (کنز العمال ج6 ص312)