مسلم نوجوانوں کے سنہری کارنامے

سادہ معاشرت

1

صحابہ کرامؓ میں سے وہ لوگ بھی جن کو اللہ تعالیٰ نے مال کثرت سے دے رکھا تھا، ہمیشہ کھانے اور پہننے میں سادگی اختیار کرتے تھے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف بہت مالدار شخص تھے۔ یہاں تک کہ ان کے ورثاء نے سونے کی اینٹوں کو تقسیم کرنے کے لیے کلہاڑیوں سے کٹوایا تھا اور کاٹنے والوں کے ہاتھوں میں آبلے پڑ گئے تھے۔ نقد دولت میں سے بیویوں کو آٹھویں حصہ میں سے اسی اسی ہزار دینار آئے تھے۔ ہزاروں اونٹ اور بکریاں ان کے علاوہ تھیں۔ (اسد الغابہ جلد3۔ صفحہ 317)۔ مگر باایں ہمہ کھانے پینے میں تکلفات سے بالکل بالا تھے۔ اور آپ کا دستر خوان گوبہت وسیع ہوتا لیکن تکلف نام کو نہ ہوتا تھا۔ اور ابتدائی ایام میں مسلمانوں کے فقر وفاقہ کو یاد کر کے آنکھیں پرنم ہو جاتی تھیں۔

2

حضرت جابرؓ بن عبداللہ گو نہایت ہی بلندمرتبت صحابی تھے مگرساتھ ہی بہت سادگی پسند اور بے تکلف تھے۔ ایک دفعہ بعض صحابہ ان سے ملنے آئے آپ اندر بیٹھے سرکہ کے ساتھ روٹی کھا رہے تھے۔ وہی اٹھا کر ان دوستوں کے پاس لے آئے۔ اور ان کو شریک طعام ہونے کی دعوت دی۔ اور ساتھ فرمایا کہ اگر کسی کے پاس اس کے دوست احباب آئیں تو اسے چاہیے کہ جو کچھ حاضر ہو پیش کردے۔ اور مہمانوں کو بھی چاہیے کہ کسی چیز کو حقارت سے نہ دیکھیں اور بے تکلفی کے ساتھ ماحضر تناول کرلیں۔ کیونکہ تکلف فریقین کی ہلاکت کا موجب ہے۔

3

اس ضمن میں حضرت عمر کا ایک واقعہ بھی بہت سبق آموز ہے۔ آپ ایک دفعہ اپنی بیٹی حضرت حفصہ کے ہاں تشریف لائے۔ تو انہوں نے سالن میں زیتون کا تیل ڈال کر پیش کیاتو آپ نے فرمایا کہ ایک وقت میں دو دو سالن۔ خدا کی قسم کبھی نہ کھاؤں گا۔ یاد رکھنا چاہیے کہ عرب میں زیتون کا تیل بھی سالن کی بجائے روٹی کے ساتھ کھایا جاتا ہے۔

4

حضرت مصعب بن عمیر نہایت خوشرو نوجوان تھے۔ والدین مالدار تھے اس لیے بہت نازونعم میں پرورش پائی تھی۔ نہایت بیش قیمت لباس زیب تن کیا کرتے تھے اور اعلی درجہ کی خوشبوئیں اور عطریات کے استعمال کے عادی تھے۔ آنحضرتﷺ فرمایا کرتے تھے کہ مکہ میں مصعب سے زیادہ کوئی حسین، خوش پوش اور نازونعم میں پلا ہوا نہیں۔

لیکن یہ حالت اسلام لانے سے قبل کی تھی۔ جب اسلام لائے تو رسول کریمﷺ کی تربیت کا ایسا اثر ہوا کہ یہ تمام تکلفات فراموش ہوگئے۔ اور یہاں تک تبدیلی پیدا ہوگئی کہ ایک دفعہ دربار نبوی میں حاضر ہوئے تو بدن پر ضروریات ستر کو پورا کرنے کے لیے صرف ایک کھا ل کا ٹکڑا تھا۔ جس میں کئی پیوند لگے ہوئے تھے۔ آنحضرتﷺ نے دیکھا توفرمایا۔ الحمداللہ اب سب اہل دنیا کی حالت بدل جانی چاہیے۔ یہ و ہ نوجوان ہے جس سے زیادہ نازونعم کا پلا ہوا مکہ میں کوئی نہ تھا۔ لیکن خدا و رسول کی محبت نے اسے ظاہری تکلفات سے بے نیاز کر دیا ہے۔

5

حضرت سلمان فارسی کے متعلق یہ ذکر آچکا ہے کہ آپ مدائن کے گورنر تھے۔ لیکن طرزِ معاشرت اور ظاہری لباس میں اس قدر سادگی تھی کہ ایک دفعہ کسی شخص نے بازار سے گھاس خریدی تو انہیں مزدور سمجھ کر گانٹھ ان کے سر پر لاد دی۔ کسی واقف کار نے دیکھا تو اس سے کہا کہ یہ تو ہمارے امیر اور رسول اللہﷺ کے صحابہ ہیں۔ اس پر وہ بہت نادم ہوا معذرت چاہی اور گانٹھ اتارنے کے لیے لپکا۔ مگر آپ نے فرمایا کہ نہیں اب تو تمہارے مکان پر پہنچ کر ہی اتاروں گا۔

6

حضرت عبداللہ بن عمر کی زندگی دیگر صحابہ کی طرح بہت سادہ تھی۔ ایک دفعہ کسی نے ان کے لیے بیش قیمت کپڑے بطو رہدیہ بھیجے تو انہیں یہ کہہ کر واپس کردئیے کہ میں غرور کے خوف سے ان کو پہن نہیں سکتا۔

7

صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا تمدن بے حد سادہ تھا۔ حتیٰ کہ شادی بیاہ کے مواقع پر بھی انتہائی سادگی نظر آتی تھی۔ اگر کسی کے پاس مال و دولت نہ ہو تو وہ مقروض ہو کر اپنی زندگی کو تلخ نہیں بناتے تھے۔ بلکہ جو میسر ہوا اسی پر کفایت کرلیتے تھے۔ اور چونکہ یہ روح ہر ایک میں تھی اس لیے اس بات کو معیوب بھی خیال نہیں کیا جاتا تھا بلکہ اچھا سمجھا جاتا تھا۔ ایک صحابی ایک عورت سے شادی کرنا چاہتاتھا۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا مہر کے لیے کچھ ہے۔ بولے صرف تہبند ہے۔ آپ نے فرمایا اگر یہ مہر میں دے دو تو ستر پوشی کیسے کرسکو گے۔ کچھ اور تلاش کرو۔ اور نہیں تو لوہے کی ایک انگوٹھی ہی سہی۔ آپ نے قرآن کی چند سورتوں کا سکھانا مہر مقر ر کرکے نکاح پڑھا دیا۔ ؂۲

8

حضرت ابوبکر کے متعلق سب کو معلوم ہے کہ آپ متمول اور امیر آدمی تھے۔ علاوہ ازیں اسلام میں انکو بہت بڑا مقام حاصل تھا۔ خاندانی وجاہت اور عزت کے علاوہ آپ اپنے زہد و تقدس اوفدائیت کی وجہ سے تمام مسلمانوں کی آنکھ کا تارا تھے۔ لیکن طرز معاشرت نہایت سادہ تھی۔ نہایت معمولی لباس زیب تن فرماتے اور سادہ غذا کھاتے تھے۔

9

حضرت عمر نے اسلامی مجاہدین کے لیے جو چیزیں ضروری قرار دے رکھی تھیں۔ ان میں اس بات کا خاص خیال رکھا تھا کہ ان میں عیش و عشرت کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی طرف رغبت پیدا نہ ہوسکے۔ اور مشقت پسندی، اور تکالیف کی برداشت کی عادت اور جفاکشی قائم رہے۔ چنانچہ ان کو تیرنے۔ گھوڑے کی سواری، نشانہ بازی، اور ننگے پاؤں چلنے کی مشق کرائی جاتی تھی۔ نیز حکم تھا کہ و ہ رکاب کے سہارے گھوڑے پر سوار نہ ہوں، حماموں میں غسل نہ کیا کریں، دھوپ میں کھانا کھانا نہ چھوڑیں اور نرم کپڑے نہ پہنا کریں۔

10

یہ خیال صحیح نہیں ہے کہ صحابہ کی سادگی تنگ دستی کی وجہ سے تھی۔ وہ سادہ زندگی اس واسطے بسرکرتے تھے کہ اسوہ رسول کریمﷺ اور تعلیم اسلام سے انہوں نے یہی اخذ کیا تھا۔ اور اسے تعلیم اسلام کا ایک ضروری حصہ سمجھتے تھے۔ چنانچہ روم و ایران کی فتوحات کے بعد بھی جب دولت و اموال کی کثرت تھی اس وقت بھی صحابہ کرام نہایت سادہ زندگی بسرکرتے تھے۔ ایک دفعہ ام المومنین حفصہ نے حضرت عمر سے کہا کہ اب تو خدا تعالیٰ نے فراخی عطا فرمائی ہے آپ عمدہ غذا اور اچھے کپڑے استعمال کیا کریں۔ تو آپ نے جوا بدیا کہ خدا کی قسم میں تو اپنے آقا کے نقش قدم پر ہی چلوں گا۔ خواہ کتنی خوش حالی کیوں نہ نصیب ہو اور اس کے بعد دیر تک آنحضرتﷺ کی سادگی اور عسرت کا تذکرہ کرتے رہے یہاں تک کہ حضرت حفصہ بے قرار ہو کر رونے لگیں۔

11

ایک مرتبہ حضرت عمر یزید بن ابی سفیان کے ساتھ کھانے پربیٹھے، دسترخوان پر عمدہ کھانے لائے گئے تو آپ نے کھانے سے انکار کردیا۔ اور فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر تم اسوہ رسول اللہﷺ کو ترک کرو گے تو صراط مستقیم سے دور جاپڑو گے۔

12

حضرت عمر باوجود یہ کہ شہنشاہ کی حیثیت رکھتے تھے پھر بھی ضرورت سے زیادہ کپڑے نہیں بنواتے تھے۔ ایک دفعہ آپ دیر تک گھر سے باہر نہ آئے اور لوگ انتظار کرتے رہے۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ کپڑے میلے ہوگئے تھے اس لیے ان کو دھو کر سوکھنے کا انتظار کر رہے تھے۔

ایک دفعہ ایک شخص نے آپ سے کہا کہ آپ کی غذا اتنی سادہ اور معمولی ہوتی ہے کہ ہمارے لیے اسکا کھانادشوارہوتاہے۔ آپ نے فرمایا۔ کیاتم سمجھتے ہو کہ اعلیٰ درجہ کی غذا کھانے کی طاقت نہیں رکھتا۔ یہ صحیح نہیں۔ خدا تعالیٰ کی قسم ہے اگر مجھے قیامت کا خوف نہ ہوتا تو میں بھی نہایت اعلیٰ درجہ کی غذائیں کھا سکتاتھا۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سادگی عدم مقدرت کی بناء پر نہ تھی بلکہ اکابر صحابہ اسے اسلامی تعلیم کا جزو سمجھتے تھے۔

13

ایک مرتبہ حضرت عمر نے بعض صحابہ کو عراق کی ایک مہم پر روانہ فرمایا۔ وہ وہاں سے کامیاب و کامران واپس آئے تو زرق برق لبا س میں ملبوس تھے۔ حضرت عمرؓ نے ان کو دیکھا تو منہ پھیر لیا۔ اور بات تک نہ کی۔ وہ اس برہمی کی وجہ سمجھ گئے۔ وہاں سے اٹھ کرگھروں کو گئے اور سادہ لباس پہن کر واپس آئے۔ تو آپ ان کے ساتھ نہایت خندہ پیشانی سے ملے اور ہر ایک سے بغلگیر ہوئے۔ جو ثبوت ہے اس بات کا کہ حضرت عمرؓ سادہ لباس کو تعلیم اسلام کے ماتحت ضروری سمجھتے تھے۔ اور سادگی تنگ دستی کے نتیجہ میں نہ تھی۔

14

حضرت عثمانؓ امرائے عرب میں سے تھے اور اگر چاہتے تو امیرانہ ٹھاٹھ رکھ سکتے تھے۔ لیکن آپ نے کبھی زیب و زینت کی چیزیں استعمال نہیں کیں۔ حتیٰ کہ اس زمانہ میں عرب کے متوسط طبقہ کے لوگ جو کپڑے استعمال کرتے تھے اس سے بھی آپ پرہیز کرتے تھے۔

15

آنحضرتﷺ کے جگر گوشہ حضرت فاطمۃ الزہرا کی شادی حضرت علیؓ کے ساتھ ہوئی۔ تو جہیز میں ایک پلنگ، ایک بستر، ایک چادر، دو چکیاں اور ایک مشکیزہ دیا گیا۔ اور آپ کی دعوت ولیمہ میں صرف کھجور، جوکی روٹی، پنیر اور شوربا تھا۔ اس پر بھی حضرت اسماء کا بیان ہے کہ اس زمانہ میں اس سے زیادہ پرتکلف ولیمہ نہیں ہوا۔

آج مسلمانوں کی ابتر حالت دیکھ کر ہر دردمند کا دل خون ہو جاتا ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ اس کے علاج تک عوام کی نظرتو جاتی نہیں اورلیڈروں کو اس کی طرف کوئی توجہ نہیں۔ فی زمانہ مسلمانوں کے مصائب کی وجوہ میں سے ایک بڑی وجہ ان کی کام سے نفرت اور پرتکلف زندگی کی عادت ہے۔ مسلمانو ں میں بیکاری بہت زیادہ ہے۔ نوجوان بالخصوص کام سے متنفر ہیں۔ اور جو کام انکے خودساختہ معیار کے مطابق نہ ہو اسے اختیار کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ اور اس کے ساتھ اپنے آپ کو ایسے تکلفات اور بے جا اسراف کا عادی بنا رکھا ہے کہ جس میں اخراجات بہت زیادہ ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ جب انسان ایسی مشکلات میں مبتلاہو تو دین کی را ہ میں قربانی بھی مشکل ہوتی ہے۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تمدن اورسادہ زندگی کا نقشہ متذکرۃ الصدر مثالوں سے بالکل واضح اور نمایاں صورت میں ہمارے سامنے آجاتا ہے۔ عسرت کی حالت کو نظر انداز کردیں پھر بھی آپ دیکھیں گے کہ وہ لوگ بالکل سادہ تھے۔ حتیٰ کہ جب اموال بکثرت آنے شروع ہوئے اس وقت بھی ان کی سادگی میں کوئی فرق نہیں آیا۔ اور انہوں نے معلم ربانی سے جو تعلیم حاصل کی تھی اسے کسی حالت میں بھی نظر انداز نہیں کیا۔ نہ کھانوں میں اسراف کے عادی ہوئے اور نہ پہننے میں، شادی بیاہ کے موقع پر بھی اس سادگی کو بدستور قائم رکھتے تھے۔ حتیٰ کہ شہنشاہ کونین سرور دو عالمﷺ نے اپنی پیاری بیٹی حضرت فاطمۃ الزہرا کی شادی ایسے رنگ میں کی کہ آج کوئی معمولی سے معمولی حالت رکھنے والا مسلمان بھی کرنا گوارا نہ کرے گا۔ مسلمان شادی بیاہ پر آج جس قدر اسراف کرتے ہیں اس کا مقابلہ آنحضرتﷺ کے اسوہ کے ساتھ کرتے ہوئے شرم آجاتی ہے۔ اگر استطاعت ہو توایک حد تک جائز خرچ کو گوارا بھی کیا جاسکتا ہے لیکن آج جو مصیبت درپیش ہے وہ یہ ہے کہ پاس نہ ہونے کی صورت میں قرض اٹھایا جاتا ہے۔ جو بعض صورتوں میں کئی پشتوں تک ادا نہیں ہوتا اور دادا کی غلطی پوتوں تک کی زندگی کو اجیرن کیے رکھتی ہے۔

آنحضرتﷺ کے زمانہ میں دین کی راہ میں قربانیوں کا رنگ اورتھا۔ اور آج بالکل اور ہے۔ آج سب سے زیادہ مالی قربانیوں کی ضرورت ہے۔ اور ظاہر ہے کہ جب تک انسان اپنی ضروریات کو محدود کر کے اپنی آمدنی میں سے کچھ بچت نہ کرے وہ مالی قربانی کرنے کے قابل کسی صورت میں نہیں ہوسکتا۔ اور اسی وجہ سے جماعت احمدیہؐ کے امام حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الثانی نوراللہ مرقدہ نے مخالفین کے مقابلہ میں جماعت کی مضبوطی کے لیے جو تحریک کی اس میں سادہ زندگی اختیار کرنے پر خاص زور دیا گیا ہے۔ سادہ کھانا، سادہ کپڑے پہننا، ضروریات سے زیادہ کپڑے نہ بنوانا اور اس طرح کے غیر ضروری اخراجات مثلاً عورتوں کے لیس، فیتہ، گوٹا، کناری اور پھربے فائدہ بلکہ مخرب الاخلاق اخراجات مثلاً سینما، تھیٹر، سرکس وغیرہ تماش بینیوں کی ممانعت فرمائی ہے۔ اور ان باتوں پر عمل کرنا جہاں ہمارے لیے اخروی نجات کا ذریعہ بن سکتے ہے۔ وہاں ہمیں طرح طرح کی تمدنی اور اقتصادی پریشانیوں سے بھی نجات دلا سکتا ہے۔ اور یہ ایک ایسی مفید اورمبنی بہ دور اندیشی تجویز ہے کہ اگر آج مسلمان من حیث القوم اسے اختیار کرلیں تو جہاں ایک طرف وہ اپنے پیغمبرﷺ اور بزرگان دین کے نقش قدم پر چل کر ثوا ب حاصل کریں گے۔ وہاں تمدنی مشکلات سے بھی نجات حاصل کرسکیں گے۔ اور اقتصادی حالت کی درستی کے ساتھ اس قابل ہوسکیں گے کہ قومی طورپر ترقی کرسکیں۔

حوالہ جات

  1.  (اصابہ ج4 ص177 ) (اسد الغابہ ج3 ص375)
  2.  (مسند احمد ج1ص371)
  3.  (اسد الغابہ ج3 ص653)
  4.  (ابن سعد ج1 ص82)
  5.  (ابن سعد ج4ص88)
  6.  (ابن سعد ج4ص161)
  7.  (ابو داؤد کتاب النکاح)
  8.  (ابن سعد ج3ص139)
  9.  (ابو داؤد کتاب الخراج)
  10.  (کنز العمال ج12 ص 635)
  11.  (کنز العمال ج12 ص621)
  12.  (کنز العمال ج12 ص624)
  13.  (کنز العمال ج12 ص637)
  14.  (زرقانی ج2 ص8)