مسلم نوجوانوں کے سنہری کارنامے

ہاتھ سے کام کرنا

1

صحابہ کرام کے اخلاق میں یہ چیز نہایت نمایاں نظرآتی ہے کہ وہ لوگ ہاتھ سے کام کرنے میں کوئی عار نہ سمجھتے تھے۔ اور اس میں کسی قسم کی ہتک یاسبکی کا خیال ان کے دامن گیر نہ ہوتا تھا۔ جنگ اور اس کے ضمن میں خدمات کے وقت وہ جس شوق سے کام کرتے تھے اس کو نظر انداز کر کے عام زندگی کے چند واقعات پیش کیے جاتے ہیں۔

آنحضرتﷺ پہلے پہل جب مدینہ میں تشریف لائے تو سب سے پہلا کام ایک مسجد کی تعمیر تھا۔ جس کا سنگِ بنیاد آنحضرتﷺ نے اپنے ہاتھ سے رکھا۔ اس مسجد کے معمار اور مزدور سب کچھ صحابہ خود تھے۔ آنحضرتﷺ خود بھی کبھی کبھی ان کے ساتھ شرکت فرماتے تھے۔ یہ کام صحابہ نہایت شوق سے کرتے اور بعض اوقات ساتھ ساتھ یہ شعر بھی پڑھا کرتے ؂

ہذا الحمال لا حمال خیبر
ہذا ابرر بنا راطھر

یعنی یہ بوجھ خیبر کے تجارتی مال کا بوجھ نہیں جو اونٹوں پر لد کر آیا کرتا ہے بلکہ اے مولا یہ تقویٰ و طہارت کا بوجھ ہے جو ہم تیری رضا کے لیے اٹھاتے ہیں۔ اسی طرح قباء کے مقام پر بھی جہاں مہاجرین پہلے پہل آکر آباد ہوئے تھے صحابہ نے خود اپنے ہاتھوں سے مسجد تعمیر کی تھی۔

2

حضرت ابودرداء ایک نہایت بلند پایہ اورفاضل صحابی تھے۔ ان کے حلقۂ درس میں بیک وقت سینکڑوں طلباء کی حاضری لکھی ہے۔ مگر انہیں ہاتھ سے کام کرنے کا اس قدر شوق تھا کہ دمشق کی مسجد میں جہاں وہ امام تھے اپنے ہاتھ سے درخت لگایا کرتے اور ان کی پرورش و دیکھ بھال کیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک شخص نے تعجب کے رنگ میں ان سے کہا کہ یہ کام اپنے ہاتھ سے کرتے ہیں تو فرمایا اس میں بڑا ثواب ہے۔

3

حضرت حرام بن ملحان مسجد نبوی میں خود پانی بھرا کرتے تھے۔ جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لاتے اور ان کو فروخت کرکے اصحاب الصفہ اور دوسرے محتاجوں کے لیے خوراک مہیا کیا کرتے تھے۔

4

بیئر معونہ کے مقام پر ستر قاریوں کے کفار کے ہاتھوں شہید ہونے کا واقعہ کسی دوسری جگہ ذکر کیا جاچکا ہے۔ ان قاریوں کے متعلق لکھا ہے کہ وہ دن کے وقت جنگل سے لکڑیاں کاٹ کرلاتے اور اس طرح اپنے واسطے قوت لایموت کا سامان مہیا کرتے تھے اور پھر رات کا بہت سا حصہ عبادت میں گزارتے تھے۔

5

آنحضرتﷺ پہلے مسجد میں ایک ستون کے سہارے کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ آپ نے منبر کا خیال ظاہر فرمایا تو ایک صحابی حضرت سہل جو کمسن ہی تھے اٹھے اور منبر کے لیے جنگل سے لکڑی کاٹ کر لے آئے۔

6

حضرت کعب بن عجزہ ایک دفعہ آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ حضور کاچہرہ مبارک بھوک کی وجہ سے متغیر ہو رہا ہے۔ چنانچہ آپ فوراً مجلس سے اٹھے اورباہر چلے گئے۔ ایک یہودی اونٹوں کو پانی پلا رہا تھا۔ اس سے فی ڈول ایک چھوہارہ کے حساب سے مزدور ی طے کی اور اس طرح کچھ چھوہارے جمع کر کے لائے اور آنحضرتﷺ کی خدمت میں پیش کیے۔

7

حضرت عبداللہ بن سلام ایک متمول صحابی تھے۔ ایک دفعہ لوگوں نے دیکھا کہ آپ لکڑیوں کا گٹھا اٹھائے ہوئے آرہے ہیں تو کہا کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے اس سے مستغنی کیاہے۔ آپ نے فرمایا کہ میں کبر و غرور کا قلع قمع کرنا چاہتا ہوں۔

8

حضرت سعد بن ابی وقاص، جنہوں نے 19 سال کی عمر میں اسلام قبول کیا تھا کاشمار کبار صحابہ میں ہے۔ آپ نہایت عالم و فاضل، جرنیل اور معزز عہدوں پر متمکن ہوتے رہے۔ آپ کا علمی پایہ اس قدر بلند تھا کہ حضرت عمر فرمایا کرتے تھے کہ جب سعد رسول ﷺ سے کوئی روایت بیان کریں تو پھر اس کے متعلق کسی اور تصدیق کی ضرورت نہیں۔ لیکن سادگی اور ہاتھ سے کام کرنے کی جو تعلیم معلم اسلام سے حاصل کی اسے کسی رتبہ پر پہنچ کر بھی نہ چھوڑا۔ ایک مرتبہ آپ جنگل میں اونٹ چرا رہے تھے کہ خود ان کے لڑکے نے آکر کہا کہ یہ بھی کوئی اچھی بات ہے کہ لوگ تو بادشاہتیں اور حکومتیں کریں اور آپ جنگل میں اونٹ چراتے پھریں۔ آ پ نے اس کے سینہ پر ہاتھ رکھ کر فرمایا چپ رہو میں نے آنحضرتﷺ سے سنا ہے کہ خداتعالیٰ مستغنی اور پرہیز گار بندے کو محبوب رکھتا ہے۔

9

حضرت سلمان فارسی مدائن کے گورنر تھے۔ پانچ ہزار دینار ماہانہ مشاہرہ ملتا تھا۔ مگر باوجود اس کے اپنے ہاتھ سے چٹائیاں بن کر ذریعہ معاش پیدا کرتے تھے۔ اور تنخواہ سب کی سب راہ خدا میں صرف کردیتے تھے۔

10

حضرت علی کرم اللہ وجہ کی فضیلت محتاج تشریح نہیں۔ آپ آنحضرتﷺ کے داماد اور اہل بیت میں شامل تھے۔ حضرت فاطمہ الزہرا کے ساتھ آپ کا نکاح ہوا تو دعوت ولیمہ کا کوئی سامان نہ تھا۔ آپ کے پاس صرف دو اونٹنیاں تھیں۔ آپ نے تجویز کیا کہ جنگل میں سے ایک گھا س جسے اذخر کہتے ہیں اور جو سناروں کے کام آتی ہے لاد کر لائیں اور اسے سناروں کے پاس بیچ کردعوت ولیمہ کے لیے سامان فراہم کریں۔

11

حضرت عقبہ بن عامر فرماتے ہیں کہ کنامع رسول اللّٰہ صلعم خدام۔ یعنی ہم سب آنحضرتﷺ کے ساتھ خود اپنے خادم ہوتے تھے اور باری باری اپنے اونٹ چراتے تھے۔

12

ایک دفعہ آنحضرتﷺ کو فاقہ کی حالت میں پاکر حضرت علی ایک یہودی کے باغ میں آئے۔ اور فی ڈول ایک کھجور معاوضہ طے کر کے سترہ ڈول پانی کے کھینچے۔ اور اس طرح سترہ کھجوریں حاصل کرکے آنحضرتﷺ کے حضور لاکر پیش کیں۔

13

حضرت عبداللہ بن عمر سفر میں ہوتے تو جو کام خود کرسکتے وہ کسی دوسرے کے سپرد نہ کرتے تھے۔ حتی کہ اپنی اونٹنی کو خو دبٹھاتے۔ اور خو دسوار ہوتے تھے۔

14

حضرت عبدالرحمن بن عوف ہجرت کر کے آئے تو حضرت سعدبن الربیع کے ساتھ مواخات ہوئی۔ حضرت سعد نے ان کو نصف مال دینا چاہا تو انہوں نے کہا کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں۔ مجھے بازار کا راستہ بتادو۔ چنانچہ بازار میں گئے اور گھی و پنیر کی تجارت شروع کردی۔

15

حضرت علی حضرت سعد بن مالک حضرت عبد اللہ بن مسعودوغیرہ جلیل القدرصحابہ جب مدینہ میں آئے تو انصار کی زمینوں پر کھیتی باڑی کرنے لگے۔ اور اس طرح فصل سے حصہ لے لیتے تھے۔

16

مختصر یہ کہ صحابہ کسی کام کو رذیل نہ سمجھتے تھے۔ حضرت خباب لوہار تھے۔ ؂۶۱

17

بعض صحابیات کپڑے بنا کرتی تھیں۔ خوادم المؤمنین حضرت سودہ طائف کا ردیم بناتی تھیں۔

18

ایک صحابی کے ہاتھ سیاہ پڑ گئے۔ آنحضرتﷺ نے اس کی وجہ دریافت کی تو انہوں نے کہا کہ دن بھر پتھر پر پھاوڑا چلاتاہوں۔ اس سے اہل وعیال کی روزی کماتا ہوں۔ آپ نے اس کے ہاتھ چوم لیے۔

19

باوجود یہ کہ حضرت ابوبکر بہت بڑے امیر اور صاحب حیثیت آدمی تھے مگر ہاتھ سے کام کرنے میں کوئی عار نہ تھی۔ آپ خود بھیڑ بکریاں چرا لیتے تھے۔ محلہ والوں کی بکریوں کا دودھ دوہ دیتے تھے۔ حتی کہ جب آپ خلیفہ منتخب ہوئے تو آپ کے محلہ کی ایک لڑکی نے نہایت حسرت کے ساتھ کہا کہ اب ہماری بکریوں کا دودھ کون دوہے گا۔

20

حضرب ابوبکر کپڑے کی تجارت کیاکرتے تھے۔ حتی کہ دین و دنیا کے بلند ترین منصب پر فائز ہونے یعنی خلیفہ ہونے کے بعد بھی آپ کے دل میں یہ احساس پیدا نہیں ہواکہ اب ہاتھ سے محنت کرنا میری شان کے منافی ہے۔ اور کہ اب مجھے اس سے احترازکرنا چاہیے۔ چنانچہ اگلے ہی روز حسب معمول آپ نے کپڑے کے تھانوں کا گٹھا اٹھایا اور خریدوفروخت کے لیے بازار کی طرف چل دئیے۔ رستہ میں حضرت عمر اور حضرت ابوعبیدہ ملے تو انہوں نے کہا کہ اب تو آپ ہمارے امام ہیں یہ کام چھوڑ دیں اور بیت المال سے وظیفہ لے لیا کریں۔

یہ واقعہ ہمارے نوجوانوں کے لیے خاص طور پر عبرت انگیز ہے۔

21

اسلام کی تعلیم کے نتیجہ میں صحابہ کرام کو ہاتھ سے کام کرنے کی ایسی عادت ہوگئی تھی کہ اپنا کام کرنامعمولی بات ہے وہ دوسروں کی خدمت سے بھی دریغ نہ کرتے تھے۔ باوجود یہ کہ دنیوی لحاظ سے حضرت عمر کو اتنی بڑی پوزیشن حاصل تھی۔ کہ جو ایک بڑے سے بڑے بادشاہ کو ہوسکتی ہے۔ مگر آپ کندھے پر مشق ڈال کر بیوہ عورتوں کے لیے پانی بھر دیتے تھے۔ اور مجاہدین کے بیوی بچوں کو بازار سے سودا سلف خرید کر لا دیتے تھے۔

اس میں شک نہیں کہ اس وقت کا تمدن ہمارے موجودہ تمدن سے بہت مختلف تھا اور اس زمانہ میں امراء کو بہت سے ایسے دفتری کام نہیں پڑتے تھے جو اس زمانہ میں ضروری ہوگئے ہیں۔ اور دفتری طرز حکومت نے ذمہ دار لوگوں کے لیے کام کو اس قدر وسیع کر دیا ہے کہ انہیں بہت سا وقت اس پر صرف کرنا پڑتا ہے۔ تاہم ہمارے نوجوانوں کے لیے جو محض کسر شان کے خیال سے بعض کاموں کو اپنے لیے ہتک آمیز خیال کرتے ہیں ان واقعات میں بہت سے سبق مل سکتے ہیں۔

22

حضرت عثمان کی امارت میں کسی کو کلام نہیں۔ گھر میں خدمت گار موجود ہوتے تھے لیکن آپ کی عادت تھی کہ اپنا کام خود اپنے ہاتھ سے کرتے اور کسی کو تکلیف نہ دیتے تھے۔ رات کو تہجد کے لیے اٹھتے تو وضو وغیرہ کی تیاری کے لیے کسی کو نہ جگاتے تھے۔ بلکہ تمام سامان خود ہی کرلیتے تھے۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ آنحضرتﷺ سے براہ راست تربیت حاصل کرنے والوں کے یہ بات اچھی طرح ذہن نشین ہو چکی تھی کہ آدمی کو اپنا کام اپنے ہاتھ سے کرنا چاہیے۔

23

حضرت علی باوجود یہ کہ آنحضرتﷺ کے فرزند نسبتی اور خود بھی ایک ممتاز حیثیت کے مالک تھے۔ مگر ہاتھ سے کام کرنے میں کبھی عار محسوس نہ کرتے تھے۔ محنت مزدوری کو کبھی اپنی شان کے خلاف نہ سمجھتے تھے۔ ایک دفعہ آپ نے رات بھر کسی کے باغ میں پانی دیا اور اس کے عوض کچھ جو حاصل کیے اور پھر صبح جب کھانے کے لیے ان کا حریرہ تیار کرایا تو عین اس وقت کہ جب آپ کھانے کو تیار ہوئے ایک سائل آگیا۔ آپ نے وہ اٹھا یااور اس کے حوالے کردیا۔

24

لوگ بعض اوقات آپ سے مسائل وغیرہ پوچھنے کے لیے آتے تو آپکو کبھی گھر میں اپنا جوتا مرمت کرتے، کبھی زمین کھودتے، اور کبھی جنگل میں اونٹ چراتے ہوئے پاتے تھے۔

25

آنحضرتﷺ کو اپنے جگر گوشہ حضرت فاطمہ الزہرا سے جو محبت تھی اور آپ کی آسائش کا جس قدر خیال رہتا تھا وہ احادیث سے ظاہر ہے۔ تاہم مقدرت ہونے کے بعدبھی ان کا ہاتھ سے کام کرنا آپ کے لیے باعث تکلیف نہیں ہوا۔ چنانچہ ایک دفعہ حضرت فاطمہ الزہرا آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ مجھے گھر میں سخت محنت و مشقت کرنی پڑتی ہے حتیٰ کہ چکی پیستے پیستے میرے ہاتھوں میں چھالے پڑ گئے ہیں۔ آپ کے پاس غلام آئے ہیں ایک مجھے عنایت کردیں۔ تاکہ اس مشقت میں مدد مل سکے۔ لیکن سردار دو عالم اور شہنشاہ کونین نے اپنی اکلوتی اور محبوب بیٹی کی یہ بات سن کر جو کچھ فرمایا وہ آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ ہم لوگ نہایت تنگ دستی کی حالت میں بھی یہ پسند نہیں کرتے کہ اولاد کو معمولی مشقت کا کام بھی کرنا پڑے۔ مگر آپ کو معلوم ہے حضور نے حضرت فاطمہ کو کیا جواب دیا۔ آپ نے فرمایا کیا میں تم کو دوں اور اہل صفہ کی آسائش کا انتظام نہ کروں۔ یہ نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ وہ خالی واپس آگئیں۔ اس کے بعد آنحضرتﷺ ان کے مکان پر تشریف لائے اور فرمایا کیا تم کو میں ایسی بات بتاؤں جو اس چیز سے بہتر ہے جو تم نے مانگی ہے۔ انہوں نے کہا فرمائیے۔ آپ نے فرمایا کہ ہر نماز کے بعد 333۔ 3 بار تسبیح و تحمید اور 34 بار تکبیر کہہ لیا کرو۔

26

حضرت علی کے بلند پایہ اور عالی مقام کو ایک طرف رکھئیے اور دوسری طرف اس واقعہ کو پڑھیے جو آپ خود یوں فرماتے ہیں۔ کہ ایک دفعہ میں گھر سے مزدوری کے لیے نکلا۔ ایک عورت نے مٹی جمع کر رکھی تھی جسے بھگونا چاہتی تھی۔ میں نے اس کے ساتھ فی ڈول ایک کھجور مقرر کی اور سولہ ڈول بھرے جس سے میرے ہاتھوں میں چھالے پڑ گئے اور پھرسولہ کھجوریں لے کر میں آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور آپ کے ساتھ بیٹھ کر وہ کھجوریں کھائیں۔

27

ہاتھ سے کام کرنا صرف صحابہ تک ہی محدود نہ تھا بلکہ خود سرورکائنات شاہِ کونین سرور عالم آنحضرتﷺ کو بھی اپنے ہاتھ سے کام کرنے میں عارنہ تھی۔ احادیث میں اکثر ایسی روایات ملتی ہیں کہ آپ جب گھر میں تشریف لاتے تو گھر کے کام کاج میں امہات المومنین کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ بکریوں کا دودھ دوہ لیتے تھے اور یہاں تک کہ اپنے ہاتھ سے اپنا جوتا مرمت کرلیتے تھے۔ پھر قومی کاموں میں بھی آپ صحابہ کے ساتھ کام کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت ام سلمہ کی روایت ہے کہ غزوہ خندق کے موقعہ پر مجھے خوب یاد ہے کہ آپ کاسینہ مبارک گردوغبارسے اٹا ہوا تھا اور آپ خود دست مبارک سے اینٹیں اور پتھر اٹھا اٹھا کر صحابہ کرام کو دیتے تھے۔ اور ساتھ اشعار پڑھتے جاتے تھے کہ دفعتاً آپ کی نظر عمار بن یاسر پر پڑی۔ اور آپ نے فرمایا اے ابن سمیہ تجھ کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔

ان واقعات سے ظاہر ہے کہ صحابہ کرام کو ہاتھ سے کام کرنے کی عادت حالات کے تقاضہ کے ماتحت نہ تھی۔ بلکہ ان بزرگوں نے اپنے رہبر اورہادی سے یہی ہدایت پائی تھی اور اسی کی وجہ سے وہ ایسا کرتے تھے۔ اس میں کسی امیر و غریب یا چھوٹے بڑے کا کوئی امتیاز نہ تھا کہ خیال کیا جائے کہ وہ حالات کی مجبوری سے ایسا کرتے تھے۔

28

حضرت اسماء حضرت ابوبکر کی صاحبزادی تھیں۔ جو عرب کے متمول لوگوں میں سے تھے۔ لیکن باایں ہمہ وہ اپنے ہاتھ سے معمولی سے معمولی کام کرتی تھیں۔ ان کا نکاح حضرت زبیر کے ساتھ ایسی حالت میں ہوا کہ حضرت زبیر بالکل غریب تھے۔ ایک اونٹ اور ایک گھوڑا ان کی کل کائنات تھی۔ حضرت اسماء اونٹ اور گھوڑے کی نگہداشت خود کرتی تھیں۔ اور اس کے علاوہ گھر کا باقی کام کاج بھی۔ آنحضرتﷺ نے حضرت زبیر کو ایک زمین دی تو یہ خود وہاں جاکر کھجوروں کی گٹھلیاں اکٹھی کرتیں۔ اور تین فرلانگ سے اپنے سر پر اٹھا کر لاتی تھیں۔

29

حضرت زینب بنت ابو معاویہ کی شادی حضرت عبداللہ بن مسعود سے ہوئی تھی۔ ان کے شوہر غریب تھے۔ اور یہ دستکاری جانتی تھیں۔ اس لیے اپنے ہاتھ سے محنت کر کے گھرکا خرچ چلاتی تھیں۔

ایک گزارش

صحابہ کرام کی زندگی کا یہ پہلو ہمارے زمانہ کے لیے بہت درجہ سبق آموز ہے۔ آج مغربی تہذیب و تمدن نے نوجوانوں کے اندر ایسی خطرناک ذہنیت پیدا کر دی ہے اور خودداری اور سیلف رسپکٹ کا ایسا غلط مفہوم ان کے سامنے پیش کر دیا ہے کہ و ہ بعض کاموں کو کرنا کسرشان سمجھتے ہیں۔ اور اس مفروضہ عزت نفسی کے خیال سے بیکاری کے مرض میں نہایت بری طرح مبتلا رہتے اور نہایت حسرت کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں۔ اپنے والدین اور متعلقین کے لیے ایک بار بنے رہتے ہیں۔ لیکن جب تک خود ساختہ معیار کے مطابق کام نہ ملے بے کار ہی رہنا پسند کرتے ہیں۔ جس کا ایک خطرناک نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی تربیت خراب ہو جاتی ہے۔ طبعیت میں آوارگی اور بے راہ روی پیدا ہو کر بعض اوقات ان کے چال چلن کوبگاڑ دیتی ہے۔ ایسے نوجوان اگران واقعات کو غور سے پڑھیں اور سوچیں کہ و ہ خواہ کتنے معزز گھرانوں کے چشم و چراغ کیوں نہ ہوں۔ سرور کائنات شاہِ دو عالم محمد مصطفےٰ ﷺ کے خاندان کے افراد سے زیادہ معزز نہیں ہوسکتے۔ اور جب یہ حالت ہے کہ حضور ﷺ کا فرزند نسبتی اور قریش کے معزز ترین گھرانے کا معزز اور عالم و فاضل فرزند معمولی گھاس کاٹ کر لانے اور اسے بازار میں فروخت کرنے میں کوئی سبکی محسوس نہیں کرتا۔ اور پیغمبر اسلام ﷺ کی ازدواج مطہرات اپنے ہاتھ سے کام کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتیں۔ نہ خاندانی وجاہت ان کے دامن گیر ہوتی ہے اور نہ ہی اس فخر موجودات کے خاندان سے انتساب ان کی محنت و مشقت کے راستہ میں حائل ہوتا ہے۔ تو یقینا و ہ اپنی روش پر نظر ثانی کے لیے مجبور ہوں گے۔ اوراگر یہ واقعات ان کے دل پر اثر اندازہو کر ان ذہنیتوں میں اصلاح کرسکیں تو مسلمانوں کی قومی اور تمدنی زندگی میں ایک نہایت خوشگوار اور آرام دہ انقلاب پیدا ہوسکتا ہے۔

ایک معزز صحابی کے ہاتھوں کی سیاہی کو دیکھ کر آنحضرتﷺ کا اس کی وجہ دریافت کرنا اور اس کی طرف سے یہ جواب سن کر وہ اپنے اور اپنے بیوی بچوں کے لیے قوت لایموت مہیا کرنے کے لیے سارا سارا دن پتھر پر پھاوڑہ چلاتا ہے۔ حضور ﷺ کا اس کے ہاتھوں کو چوم لینا ظاہر کرتا ہے کہ نہ صرف یہ کہ اپنے ہاتھ سے جو کام بھی ملے کرلیناکوئی کسر شان نہیں بلکہ ہمارے پیارے نبی ﷺ کے نزدیک بہت بڑا درجہ رکھتا ہے۔

حوالہ جات

  1.  (بخاری کتاب المناقب)
  2.  (سیر انصار ج1 ص184)
  3.  (بخاری کتاب المغازی)
  4.  (سیرت خاتم النبیین ص369)
  5.  (مسند احمد ج5 ص337)
  6.  (اصابہ ج5 ص449)
  7.  (تذکرۃ الحفاظ ج1 ص23)
  8.  (اسد الغابہ ج2 ص232تا235)
  9.  (اسد الغابہ ج2 ص286)
  10.  (ابو داؤد کتاب الخراج)
  11. (ابو داؤد کتاب الطہارت)
  12.  (ابن ماجہ ابواب الرہون)
  13.  (ابن سعد ج3 ص164)
  14.  (بخاری کتاب البیوع)
  15.  (بخاری کتاب الحرث)
  16.  (بخاری کتاب البیوع)
  17.  (اسد الغابہ ج6ص160) ؟
  18.  (اسد الغابہ ج2ص203)
  19.  (ابن سعد ج1 ص132)
  20.  (ابن سعد ج1 ص ہ13)
  21.  (کنز العمال ج12 ص629)
  22.  (تاریخ طبری ص 2966)
  23.  (بخاری کتاب المناقب) ؟
  24.  (تاریخ طبری ص 3348)
  25.  (بخاری کتاب المناقب)
  26.  (حلیۃ الاولیاء زیر لفظ علی بن ابی طالب)
  27.  (مسند احمد ج6 ص322)
  28.  (بخاری کتاب المغازی)
  29.  (بخاری کتاب النکاح)
  30.  (اسد الغابہ ج6 ص128)