مسلم نوجوانوں کے سنہری کارنامے

شوق پابندی نماز

1

صحابہ کرام کو عبادت گزاری بالخصوص نماز با جماعت کا اس قدرخیال رہا کرتا تھا کہ حضرت عتبان بن مالک ایک صحابی تھے۔ جو نابینا تھے۔ ان کا مکان قباء کے قریب تھا۔ مسجد اور ان کے مکان کے درمیان ایک وادی تھی۔ بارش ہوتی تو اس میں پانی بھر جاتا تھا مگر باوجود اس کے وہ مسجد میں باقاعدہ حاضر ہوتے اور نماز با جماعت ادا کرتے تھے۔

2

حضرت عتبان نے جن کا ذکر اوپر ہوچکاہے ایک مرتبہ آنحضرتﷺ سے درخواست کی کہ میں نابینا ہوں رستہ خراب ہے اس لیے مسجد میں آنے میں سخت دقت پیش آتی ہے۔ اگر اجازت ہوں تو گھر میں ہی نماز پڑھ لیا کروں۔ مگر آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ کیا اذان کی آواز آتی ہے۔ عرض کیا ہاں۔ آپ نے فرمایا پھر گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت نہیں۔ چنانچہ آپ مسجد میں ہی حاضر ہوکر نماز پڑھتے۔

3

حضرت سعید بن ربوح نابینا تھے لیکن صحابہ کے نزدیک نماز با جماعت اس قدر ضروری تھی کہ حضرت عمر نے ان کے لیے ایک غلام کی ڈیوٹی لگا رکھی تھی کہ نماز کے وقت ان کو مسجد لایا اور پھر واپس گھر پہنچایا کرے۔

4

حضرت معاذ اپنی قوم کے امام الصلوۃ تھے مگرنماز کا اس قدر شوق تھا کہ پہلے مسجد نبوی میں حاضر ہوکر آنحضرتﷺ کے ساتھ نماز ادا کرتے تھے۔ اور پھراپنی قوم میں آکر انہیں نماز پڑھاتے تھے۔

5

صحابہ کرام نماز باجماعت کے لیے کس قدر حریص واقع ہوئے تھے اس کا اندازہ کرنے کے لیے یہ واقعہ کافی ہے۔ کہ قادسیہ کے میدان جنگ میں جب صبح کی اذان ہوئی تو نوجوان مجاہدین اس قدر سرعت کے ساتھ نماز کے لیے دوڑے کہ ایرانیوں نے خیال کیا کہ حملہ کرنے لگے ہیں۔ مگر جب وہ نماز میں مشغول ہوگئے تو ان کے سپہ سالار رستم نے کہا۔ کہ عمر میرا کلیجہ کھاگیا۔ یعنی یہ قوم ہمیں ضرور نگل جائے گی۔

6

حضرت بلال کا معمول تھا کہ جب اذان کہتے دو رکعت نماز ادا کرلیتے اور ہمیشہ باوضو رہتے تھے۔ جب وضو ٹوٹ جاتا فوراً دوبارہ کرلیتے تھے۔

7

عام عبادات اور نوافل کے علاوہ نماز پنجگانہ کو نہایت پابندی اور اہتمام کے ساتھ باجماعت ادا کرتے تھے۔ حضرت سفیان ثوری روایت کرتے ہیں کا نوایتبایعون الصلوۃ المکتو بتہ فی الجماعتہ یعنی صحابہ کرام خرید و فروخت تو کیا کرتے تھے لیکن نماز با جماعت کبھی نہ چھوڑتے۔ حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ ایک بار میں بازار میں تھا کہ نماز کا وقت آگیا۔ صحابہ فوراً اپنی دکانیں اورکاروبار بند کر کے مسجد کی طرف چل دئیے۔ رِجَالٌ لَاتُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَلَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ یعنی صحابہ ایسے لوگ ہیں جن کو تجارت کے کاروبار خداتعالیٰ کی یادسے نہیں روکتے۔

8

نماز باجماعت کا صحابہ اس قدر خیال رکھتے تھے کہ سخت مجبوری اور معذوری کی حالت میں بھی اسے چھوڑنا گوارا نہ کرسکتے تھے۔ حتی کہ بعض بیمار اور معذور دو آدمیوں کے کندھوں پر سہارا لے کر جماعت میں شریک ہونے کے لیے مسجد آتے تھے۔

9

بنو سلمہ کا محلہ مدینہ میں مسجد سے بہت دور تھا۔ ان کو پابندی جماعت کا اس قدرخیال رہتا تھا کہ مشورہ کیا کہ اپنے گھر بار چھوڑ کر مسجد کے قریب جا آباد ہوں۔ آنحضرتﷺ کو اطلاع ہوئی تو آپ نے اس طرح ایک محلہ کو ویران کردینے کی تجویز کو پسند نہ فرمایا اور فرمایا کہ تمہارا جو قدم بھی مسجد کی طرف اٹھے گا اس کا ثواب ملا کرے گا۔

10

بروقت نماز ادا کرنے کا خیال صحابہ کے اس قدر دامن گیر رہتا تھا کہ ایک دفعہ آنحضرتﷺ نے ایک صحابی کو ایک فوری اور اہم کام پر مامور کر کے بھیجا۔ وہ منزل کے قریب پہنچے تو نماز عصر کا وقت ہو چکا تھا۔ آپ نے خیال کیا کہ اگر میں اسی طرح چلتا جاؤں تو ایسا نہ ہو نماز قضا ہو جائے۔ دوسری طرف دینی کام میں تاخیر بھی گوارا نہ تھی۔ اس لیے چلتے چلتے اشاروں میں ہی نماز ادا کرلی۔

11

با جماعت نماز کے لیے صحابہ سخت سے سے سخت تکلیف بھی بخوشی برداشت کرتے تھے۔ ایک رات آنحضرتﷺ کو کوئی نہایت ضروری کام پیش آگیا۔ صحابہ کرام عشاء کی نماز باجماعت ادا کرنے کے انتظار میں صبر کے ساتھ مسجد میں بیٹھے رہے۔ کئی بیٹھے بیٹھے سو گئے پھر جاگے، پھر سوئے اور پھر آنحضرتﷺ کے تشریف لانے پر اٹھے۔

حضرت انس فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام نماز عشاء کے لیے اس قدر لمبا انتظار کرتے تھے کہ نیند کے مارے ان کی گردنیں جھک جاتی تھیں۔

12

حضرت ابو سعید خضدری سے روایت ہے کہ صحابہ بعض اوقات نصف شب تک نماز عشاء کے لیے آنحضرتﷺ کا انتظار کرتے تھے۔

13

باجماعت اور بروقت نماز ادا کرنے کے لیے صحابہ نہایت ہی خضوع اور خشوع کے ساتھحاضرہوتے۔ اپنے خالق حقیقی کے حضور جبین نیاز خم کرنے میں ان کو جو مزاآتا تھا اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک مرتبہ نوجوان ایک پہاڑی درہ پرمامور تھے۔ جن میں سے ایک تو سوگئے اور دوسرے نے نماز شروع کردی۔ اتنے میں ایک مشرک کا اس طرف سے گزر ہوا تو اس نے نماز پڑھنے والے مجاہد پر تین تیر چلائے۔ جو تینوں ہی ان کے جسم میں پیوست ہوگئے لیکن نماز میں محویت کا یہ عالم تھا کہ اف تک نہ کی۔ اور برابرنماز پڑھتے رہے۔ آپ کے رفیق نے بیدار ہونے پر جب آپ کے جسم پر خون کے نشانات اور زخم دیکھے اور اس کی وجہ معلوم کی تو کہا تم نے مجھے پہلے کیوں نہ جگایا۔ کہنے لگے میں ایک سورت نماز میں پڑھ رہا تھا اور میں نے اس بات کو پسند نہ کیا کہ اسے ناتمام چھوڑ دوں۔

14

جیسا کہ مذکورہ واقعات سے ظاہر ہوچکا ہے نماز صحابہ کے لیے بہت قیمتی چیز تھی اور اس کی راہ میں حائل ہونے والی کسی چیز کو و ہ برداشت نہیں کرسکتے تھے۔ حضرت ابو طلحہ انصاری ایک مرتبہ اپنے باغ میں مصروف نماز تھے کہ ایک چڑیا پر نظر پڑی۔ اس کی رنگت اس قدر خوشکن تھی کہ دیر تک اسے دیکھتے رہے۔ نماز سے توجہ ہٹ گئی اور یہ بھی بھول گئے کہ کتنی رکعت باقی ہیں اور کتنی پڑھ چکے ہیں۔ اس سے آپ کو اس قدر قلبی اذیت پہنچی کہ آپ نے فیصلہ کرلیا کہ یہ باغ چونکہ میرے لیے فتنہ روحانی کا موجب ہوا ہے اس لیے اسے صدقہ کردوں گا۔ چنانچہ آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے سارا واقعہ بیان کیا اور باغ صدقہ کردیا۔

اسی طرح ایک اور صحابی نے جو نماز پڑھتے ہوئے کھجور کی فصل کو دیکھتے ہوئے بھول گئے کہ کتنی رکعت ادا کر چکے ہیں۔ اپنا باغ محض اس وجہ سے کہ وہ ان کی نماز میں غفلت کا موجب ہوا اسے صدقہ کر دیا۔ باغ س قدر قیمتی تھا کہ حضرت عثمان نے اسے پچاس ہزار درہم میں فروخت کیا۔

15

حضرت انس کے متعلق آتا ہے کہ آپ قیام و سجدہ کو اس قدر لمبا کرتے تھے کہ لوگ سمجھتے بھول گئے ہیں۔ یہ ان کی اکیلی نماز کے متعلق ذکر ہے۔ ورنہ جب کسی نماز میں انسان امام ہو تو اس وقت شریعت کا حکم ہے ہلکی نماز پڑھائے تاکہ بیمار اور دوسرے لوگ اکتا نہ جائیں۔

16

عرب میں جب شدت کی گرمی پڑتی ہے وہ ظاہر ہے۔ نماز ظہر اس وقت ادا کی جاتی تھی جب سورج کی تمازت پورے جوبن پر ہوتی۔ اسلام کا ابتدائی زمانہ تھا اور مسلمانوں کی غربت کا یہ عالم تھا کہ مسجد پر چھت تک نہ تھی۔ پتھریلی زمین توے کی طرح تپ جاتی تھی۔ صحابہ کرام اسی زمین پر نماز پڑھنے کے لیے بڑے شوق کے ساتھ جمع ہوتے تھے۔ کنکریاں اٹھا کر ان پر پھونکیں مار مار کر پہلے ان کو ٹھنڈا کرتے اور پھر سجدہ کی جگہ پر رکھ لیتے اور ان پر سجدہ کرتے تھے۔ حضرت زید بن ثابت سے روایت ہے کہ نماز ظہر سے زیادہ کوئی نماز ہم پر مشکل نہ تھی لیکن پھر بھی اس میں غفلت نہ ہوتی تھی۔

جو نوجوان آج کل مسقف اور فرش سے آراستہ برقی پنکھوں کے نیچے بھی مساجد میں آکر نماز ظہر ادا کرنے میں تامل کرتے ہیں وہ اگر صحابہ کرام کے اس شوق پر نظر کریں تو شرم سے ان کی گردنیں جھک جائیں۔

17

ایک صحابی کا مکان مسجد سے بہت دور تھا مگر بایں ہمہ وہ کوئی نماز قضا نہ ہونے دیتے تھے اور باقاعدہ مسجدمیں آکر ادا کرتے تھے۔ ایک صحابی نے ان سے کہا کہ کاش آپ سواری کے لیے گدھا خرید لیں تا دھوپ اور اندھیرے میں آنے جانے میں تکلیف نہ ہو۔ مگر انہوں نے کہا کہ میرا آنا جانا بھی نیکی ہے۔ اس لیے اس سے محروم نہیں ہونا چاہتا۔

اپنے خالق و مالک خدا کی عبادت اور بالخصوص نماز با جماعت ادا کرنے کی اسلامی تعلیم کے مطابق جس قدر اہمیت ہے وہ کسی تشریح کی محتاج نہیں لیکن افسوس ہے کہ ہمارے زمانہ میں بالخصوص نوجوان اور آسودہ حال طبقہ اس میں بے حدغفلت کا مرتکب پایا جاتا اور آرام طلبی اورفضول مجالس و مشاغل کے باعث عبادت الہی اور نماز کی پابندی میں بہت سست ہو رہا ہے۔ اور مسلمانوں کے تنزل کا سب سے اہم سبب یہی کوتاہی ہے۔ صحابہ کرام کے مندرجہ بالا واقعات نے آپ پر ثابت کردیا ہے کہ آنحضرتﷺ سے براہ راست تعلیم حاصل کرنے اور حضور کے فیض صحبت سے بلاواسطہ استفادہ کرنے والوں کے نزدیک یہ چیز کس قدر ضروری اور اہم تھی۔ ان واقعات میں ایک اورچیز جو آپ کو نمایاں نظرآئے گی وہ یہ ہے کہ عبادت کے معاملہ میں امیر طبقہ بھی ایسا ہی مستعد ہے جیسا غریب تندرست و معذور چھوٹے اور بڑے مرد و عورت سب یکساں طور پر اس کے حریص تھے۔ اور اس راہ میں انتہائی مشکلات کی برداشت بخوشی کرتیتھے۔

ان واقعات سے ہمارے نوجوانوں کو سبق حاصل کرنا چاہیے۔ کیونکہ صحابہ کرام کا نوجوان طبقہ اس کا جس قدر مشتاق تھا۔ اس زمانہ کے مسلمان نوجوان اسی قدر سست نظر آتے ہیں۔ بے شک جوانی کا زمانہ امنگوں اور آرزوؤں کا زمانہ ہے۔ دلچسپیوں اور مسرتوں کا زمانہ ہے لیکن اس میں بھی کلام نہیں کہ اس عمر کی عبادت بھی خاص درجہ رکھتی ہے۔

ان واقعات میں وہ مثالیں بالخصوص اس زمانہ کے لحاظ سے اہم ہیں کہ بعض صحابہ نے اپنے قیمتی باغ اور نخلستان محض اس لیے راہ خدا میں صدقہ کردئیے اور ان کو اپنے قبضہ میں رکھنا پسند نہ کیا کہ ان کی وجہ سے نماز میں ان کے استغراق اور محویت میں فرق آیا تھا۔ نیز نماز کے وقت صحابہ کا تمام کاروبار اور بازار بند کر کے مسجد میں جا پہنچنا بھی ایک قابل تقلید نمونہ ہے۔ افسوس ہے کہ آج لوگ نماز اور عبادت کی خاطر اپنا معمولی سے معمولی نقصان بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ دکاندار نماز با جماعت سے اکثر محروم رہتے ہیں۔ محض اس وجہ سے کہ دکان سے اٹھ کر جانے سے بکری میں کچھ کمی آجانے کا احتمال ہے۔ ان دونوں ذہنیتوں کو اگر بالمقابل رکھ کر دیکھا جائے تو صحابہ کرام کی ترقیات اور اس زمانہ کے مسلمانوں کی پستی کی وجوہ بہت اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہیں۔ جماعت احمدیہؐ صحابہ کرامؓ کی مثیل ہے۔ اور اس میں شک نہیں کہ وہ بہت حد تک عبادت و نماز کی پابندی میں اپنے بزرگوں کے اسوہ کو پیش نظر رکھتی ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ابھی اس میں بھی کئی افراد ایسے ہیں جو اپنی حالت میں بہت بڑی اصلاح کے محتاج ہیں۔ اورنوجوانوں میں بالخصوص اس پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اور مختصر تو یہ ہے کہ جو شخص نماز سے بھی غافل ہے اور اس کو اس کے تمام شرائط کے ساتھ ادا کرنے میں بلاوجہ کوتاہی کرتا ہے وہ کس منہ سے ان بزرگوں سے مماثلت کا دعویٰ کرسکتا ہے۔

حوالہ جات

  1.  (بخاری کتاب الصلوۃ)
  2.  (مسند احمد ج4 ص43)
  3.  (اسوئہ صحابہ ج2) ؟
  4.  (ابو داؤد کتاب الصلوۃ)
  5.  (تاریخ طبری ص2291)
  6.  (مسند احمد ج5ص 30)
  7.  (فتح الباری ج4 ص253)
  8.  (نسائی کتاب الامامۃ)
  9.  (ابن ماجہ کتاب الصلوۃ)
  10.  (ابو داؤد کتاب الصلوۃ)
  11.  (بخاری کتاب الصلوۃ)
  12.  (ابو داؤد کتاب الصلوۃ)
  13.  (موطاکتاب الصلوۃ)
  14.  (بخاری کتاب الصلوۃ)
  15.  (ابو داؤد کتاب الصلوۃ)
  16.  (ابو داؤد کتاب الصلوۃ)