مسلم نوجوانوں کے سنہری کارنامے

پابندی عہد

صحابہ کرامؓ کی زندگیوں میں پابندی عہد کا وصف بھی دوسری خوبیوں کی طرح بہت ممتاز نظر آتا ہے حتی کہ وہ دشمنوں کے معاملہ میں بھی اس کو نظر انداز نہ ہونے دیتے تھے اور خواہ کس قدر نقصان کیوں نہ اٹھانا پڑے اپنے عہد سے ہرگز نہ پھرتے تھے۔

1

حضرت عمرؓ کے زمانہ میں جب رومیوں سے مجاہدین اسلام نبرد آزماہوئے تھے اور حمص کو فتح کر چکے تھے کہ کسی فوجی مصلحت کے ماتحت بعد مشورہ یہ طے ہواکہ تمام مفتوحہ علاقہ کو خالی کر کے دمشق میں تمام قوت کو ازسرنو مجتمع کیا جائے۔ لیکن جزیہ کی رقم ان علاقوں کے رہنے والوں سے وصول کی جاچکی تھی۔ اور اس کے عوض مسلمانوں نے ان کی حفاظت کا وعدہ کیا ہوا تھا۔ جب ان علاقوں کو خالی کردینے کا فیصلہ ہوا تو چونکہ رومیوں کی حفاظت کا ذمہ نہ لیا جاسکتا تھا اس لیے جو کچھ ان سے لیا گیا تھا سب کا سب واپس کر دیا گیا۔ اس شریفانہ سلوک کا وہاں کے عیسائیوں اور یہودیوں پر اس قدر اثر ہوا کہ وہ رورو کر دعائیں کر رہے تھے کہ خدا تعالیٰ مسلمانوں کو جلدواپس لائے۔

2

ایک مرتبہ مسلمانوں نے ایک قلعہ کا محاصرہ کررکھا تھا۔ کہ مجاہدین اسلام میں سے ایک غلام نے اہل قلعہ کے ساتھ وعدہ کیا کہ انہیں امان دی جائے گی۔ اور چونکہ اس کا کوئی خاص موقعہ نہ ملا تھا اس لیے عام طو پر مسلمانوں نے اس کی وعدہ کی پابندی سے انکار کر دیا۔ لیکن محصورین نے کہا کہ ہمیں اس کا کیا علم کہ وعدہ کرنے والا غلام ہے یا آزاد۔ ہم سے جو وعدہ ہوا ہے وہ بہرحال پوراہونا چاہیے۔ آخر یہ معاملہ حضرت عمر کی خدمت میں پیش ہوا تو آپ نے فرمایا کہ مسلمان غلام کاوعدہ بھی قوم کا وعدہ ہے۔ جس کی پابندی لازمی ہے۔

3

پابندی عہدکامسلمان اس قدر خیال رکھتے تھے کہ بڑے سے بڑے حاکم کو بھی اس کی خلاف ورزی کی طرف مائل دیکھتے تو فوراً روک دیتے تھے۔ ایک دفعہ حضرت امیر معاویہ نے رومیوں کے ساتھ معاہدہ کیا تھا لیکن ابھی اسکی معیاد ختم نہ ہوئی تھی کہ حملہ کی تیاری شروع کردی۔ حضرت عمر بن عنسہ کو جب اسلامی فوج کی تیاریوں کاعلم ہوا تو گھوڑے پر سوار ہو کر حضرت معاویہ کے پاس پہنچے اور فرمایا کہ وفا کرنی چاہیے۔ بد عہدی مسلمان کے لیے مناسب نہیں۔

4

کفار کے ساتھ جو وعدہ ہوتا مسلمان اس کی خلاف ورزی بھی گوارا نہ کرتے تھے۔ امیر معاویہ نے حضرت عقبہ بن عامر کو مصرکا گورنر مقرر کیا۔ وہ مصر کے ایک گاؤں میں اپنے لیے رہائشی مکان تعمیر کرنا چاہتے تھے۔ اور اسکے لیے انہوں نے ایک غیر آباد زمین جو کسی کی ملکیت نہ تھی انتخاب کی۔ ان کے ایک ملازم نے کہا کہ آپ کوئی عمدہ قطعہ مکان کے لیے تجویز کریں۔ یہ زمین جو آپ لے رہے ہیں کوئی اچھی نہیں لیکن حضرت عقبہ نے جواب دیا کہ یہ نہیں ہوسکتا کیونکہ ذمیوں کے ساتھ جو ہمارا معاہدہ ہے اس کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ ان کی کوئی زمین ان کے قبضہ سے نہیں نکالی جائے گی۔

5

پہلے یہ ذکر آچکا ہے کہ آنحضرتﷺ نے ستر حفاظ اور قراء کا ایک وفد ایک قبیلہ کی درخواست پر تعلیم دین کے لیے ان کے ساتھ بھیجا تھا۔ مگر کفار نے ان پر حملہ کر کے سوائے دو کے سب کو شہید کردیا۔ ان میں سے زندہ بچنے والوں میں سے ایک حضرت عمروبن امیہ ضمیر تھے۔ وہ جب واپس مدینہ آرہے تھے تو رستہ میں قبیلہ بنو عامر کے دو شخص ملے۔ حضرت عمرو نے جذبہ انتقام کے ماتحت ان کو قتل کردیا۔ مدینہ میں پہنچ کر جب سب حالات حضور کی خدمت میں عرض کیے تو ساتھ ہی ان دو اشخاص کے قتل کا بھی ذکر کیا۔ آنحضرتﷺ نے فرمایاکہ یہ دونوں تو ہم سے عہد و پیمان کر گئے تھے۔ اس لیے ان کا قتل جائز نہ تھا۔ اور اس کی تلافی کے لیے اب ان کاخون بہا ادا کرنا ضروری ہے۔

6

صلح حدیبیہ کے موقعہ پر جو معاہدہ مرتب ہوا تھا اس کی رو سے یہ طے پایا تھا کہ اگلے سال مسلمان مکہ میں آکر عمرہ کرسکتے ہیں۔ مگر تین روز سے زیادہ مکہ میں ٹھہرنہیں سکتے۔ چنانچہ آنحضرتﷺ دو ہزار مسلمانوں کے ساتھ تشریف لائے اور ارکان عمرہ سے فارغ ہو کر ام المومنین حضرت میمونہ کے ساتھ نکاح کیا۔ چوتھے روز مشرکین کاایک وفد آنحضرتﷺ کی خدمت میں آیا اور کہاکہ تین روز ہوگئے اس لیے آپ مکہ سے چلے جائیں۔ آپ نے فرمایا کہ اگر تم لوگ اجازت دو تو میں یہاں دعوت ولیمہ دوں اور مکہ والوں کو بھی کھلاؤں۔ مگر انہوں نے کہا کہ ہمیں دعوت کی ضرورت نہیں۔ آپ عہد کی پابندی کریں۔ چنانچہ آپ نے فوراً کوچ کے اعلان کی منادی کرادی۔ اور مکہ سے نکل کر وادی سرف میں قیام فرمایا۔

7

جنگ یمامہ میں جب مسیلمہ کذا ب مارا گیا تو اسکے بقیہ السیف لوگوں میں سے کچھ تو قید ہوگئے اور کچھ فرار۔ قلعہ و شہریمامہ میں زیادہ تر عورتیں اور بچے ہی رہ گئے تھے۔ لیکن حضرت خالد کو اس حقیقت کا علم نہ تھا۔ قیدیوں میں سے ایک شخص مجاعہ بن مرارہ نے ان سے کہا کہ ابھی شہر میں بہت سے جنگجو سپاہی ہیں جن کے پاس رسد بھی کافی ہے۔ اوروہ آپ کو کافی لمبے عرصے تک پریشان کرسکتے ہیں۔ اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں اندر جاکر ان کو مصالحت پر آمادہ کروں۔ حضرت خالد اس بات پر رضامند ہوگئے اور اسے جانے کی اجازت دے دی۔ و ہ شخص شہر میں گیا اور جاکر عورتوں اور بچوں کو مسلح کر کے فصیل پر کھڑا کردیا۔ تاکہ یہ ظاہر ہو کہ قلعہ میں زبردست فوج موجود ہے اور صلح کی شرائط میں مسلمان ہمارے ساتھ نرمی پر آمادہ ہوسکیں۔ خیر صلح ہوگئی اور اہل شہر کو کچھ مراعات بھی حاصل ہوگئںو۔ لیکن جب اسلامی لشکر قلعہ میں داخل ہوا تو مجاعہ کے فریب کاپتہ چلا۔ حضرت خالد نے اس سے کہا کہ تونے مجھے دھوکا کیوں دیا۔ اس نے کہا کہ اگر میں ایسا نہ کرتا تو میری قوم تباہ ہوجاتی۔ اگرچہ اسنے معاہدہ صلح میں دھوکا سے کام لیا تھا۔ لیکن حضرت خالد بن ولید نے پھر بھی اس کی پابندی ضروری سمجھی اور کسی شق کی خلاف ورزی کا خیال تک بھی دل میں نہ لائے۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد حضرت ابوبکر امیرالمومنین کا حکم نامہ پہنچا کہ فتح کے بعد یمامہ کے بالغ مردوں کو قتل کر دیا جائے اور عورتوں اور بچوں کو قید کرلیا جائے۔ لیکن چونکہ اس حکم کے پہنچنے سے قبل صلح نامہ مکمل ہو چکا تھا اس لیے اس کی تعمیل نہ کی جاسکی اور یہ واقعہ مسلمانوں کے ایفائے عہد کے واقعات میں خاص طورپر ممتاز ہے۔

8

ایرانیوں کا ایک سردار ہرمزان نامی تھا۔ ایرانی جب قادسیہ کے میدان میں شکست کھا کر بھاگے تو اس شخص نے خوزستان کے علاقہ میں اپنی ایک خودمختار حکومت قائم کرلی۔ مسلمانوں نے اسے شکست دی تو اس نے اطاعت قبول کرلی لیکن پھر بغاوت کی۔ مسلمانوں نے پھر اس کی سرکوبی کی لیکن اس کے بعد پھر اس نے جب دیکھا کہ شاہ فارس اپنی فوجیں جمع کر کے مسلمانوں کے ساتھ مقابلہ کے لیے آرہاہے تو اس کی مدد کے لیے آمادہ ہوگیا اورمسلمانوں کے ساتھ برسرپیکار ہوا۔ بہت سی تگ و دو اور لڑائیوں کے بعد اس نے درخواست کی کہ میں پھر صلح کرتا ہوں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ مسلمان مجھے مدینہ میں اپنے خلیفہ کی خدمت میں بھیج دیں۔ وہ جو فیصلہ میرے متعلق کریں گے مجھے بسر و چشم منظور ہوگا۔ چنانچہ اسے مدینہ بھیجا گیا۔ جب وہ فارو ق اعظم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے اس سے دریافت کیا کہ تم نے اتنی مرتبہ کیوں بد عہدی کی ہے۔ ہر مزان نے کہاکہ مجھے پیاس لگی ہے چنانچہ پانی لایا گیا۔ تو پیالہ پکڑ کر اس نے کہا کہ مجھے خوف ہے کہ آپ مجھے پانی پینے کی حالت میں ہی قتل کردیں گے۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ نہیں اس کا کوئی فکر نہ کرو۔ جب تک تم پانی نہ پی لو تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔ یہ سنتے ہی اس نے پیالہ ہاتھ سے رکھ دیا اور کہا کہ میں پانی پیتا ہی نہیں۔ اور اس وعد ہ کے مطابق اب آپ مجھے قتل نہیں کرسکتے۔ اب دیکھیں کہ یہ بھی کوئی وعدہ ہے۔ عام رنگ میں ایک بات کی گئی جسے توڑ مروڑ کر اس سے فائدہ اٹھایا جارہا ہے۔ اور پھر یہ ایک ایسے شخص کی طرف سے ہے جو کئی بار بدعہدیاں کرچکا ہے۔ اور عرصہ دراز تک پریشانی کا باعث بنا رہا۔ لیکن اس کے باوجود حضرت عمر نے فرمایا کہ گو تم نے میرے ساتھ دھوکا کیا مگر میں تم کو دھوکا نہ دوں گا اور تمہیں قتل نہ کراؤں گا۔

حوالہ جات

  1.  (کتاب الخراج لقاضی ابو یوسف ص31) ؟
  2.  (فتوح البلدان ص1398) ؟
  3.  (ابو داؤد کتاب الجہاد)
  4.  (مقریزی ج1 ص208) ؟
  5.  (تاریخ اسلام مصنفہ اکبر شاہ خان ص174)