مسلم نوجوانوں کے سنہری کارنامے

دینی امور میں رازداری

غیرت ایمانی کے باب میں ایسی امثلہ پیش کی جاچکی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرامؓ دین میں فتنہ پیدا کرنے والے امور کو کسی صورت میں چھپاتے نہیں تھے۔ اور ان پر پردہ نہیں ڈالتے تھے بلکہ فتنہ انگیز باتوں کو خودبخود ظاہر کردیتے تھے۔ خواہ وہ ان کے عزیز سے عزیز کے منہ سے کیوں نہ نکلی ہوں۔ اور جس طرح ایسی باتوں کا اظہار اور ذمہ دار لوگوں تک ان کا پہنچنا ضروری ہے اس طرح قومی ترقی کے لیے ایسی باتوں کو چھپانا بھی ضروری ہوتا ہے جن کا اظہار دشمن کے لیے مفید ہوسکتا ہو۔ اور اس وجہ سے ان کا چھپانا ضروری ہو اور یہ چیز بھی صحابہ کرام کی زندگیوں میں نہایت نمایاں نظر آتی ہے۔ ذیل میں اس کی چند ایک مثالیں درج کی جاتی ہیں۔

1

حضرت عبداللہ بن ارقم ایک نوجون صحابی تھے۔ جو مراسلات تحریر کیا کرتے تھے۔ پوشیدہ سے پوشیدہ مراسلات ان کی تحویل میں رہتے تھے۔ مگر وہ خود بھی کبھی ان کو کھول کر بلاضرورت نہ پڑھتے تھے۔ چہ جائیکہ کسی کو ان کے مضمون سے آگاہ کریں۔

2

حضرت انس آنحضرتﷺ کے خادم تھے۔ اور باوجود یہ کہ آپ کی عمر آٹھ دس سال کی تھی آپ حضور کے کاموں میں انتہائی رازداری سے کام لیتے تھے۔ ایک دفعہ حضور کی خدمت سے فارغ ہو کر گھر کو روانہ ہوئے۔ راستہ میں بچے کھیل رہے تھے۔ آپ بھی بتقاضائے عمر کھیل دیکھنے میں مشغول ہوگئے۔ کہ اتنے میں آنحضرتﷺ تشریف لے آئے۔ لڑکوں نے انہیں بتایا کہ حضورﷺ تشریف لا رہے ہیں۔ حضور جب قریب پہنچے تو حضرت انس کا ہاتھ پکڑ کر ان کو علیحدہ لے گئے اور ان کے کان میں کچھ ارشاد فرمایا جسے سن کر حضرت انس وہاں سے چلے گئے۔ اور آنحضرتﷺ آپ کے انتظار میں وہیں تشریف فرمارہے۔ حضرت انس فارغ ہو کر واپس آئے اور حضور کو جواب سے آگاہ فرمایا۔ جسے سن کر حضورﷺ واپس تشریف لے گئے اور حضرت انس گھر چلے گئے۔ اور اس غیر معمولی کام کی وجہ سے چونکہ گھرواپس آنے میں معمول سے تاخیر ہوگئی تھی۔ والدہ نے تاخیر کی وجہ پوچھی تو حضرت انس نے کہا کہ آنحضرتﷺ نے ایک کام پر بھیجا تھا۔ اس لیے دیر ہوگئی۔ اور چونکہ آپ ابھی بچے تھے والدہ نے اس خیال سے کہیں یہ بہانہ ہی نہ ہو کہا کہ کس کام پر بھیجا تھا۔ حضرت انس نے جواب دیا کہ وہ ایک خفیہ بات تھی۔ جو افسو س ہے کہ میں آپ کو بتا نہیں سکتا۔ والدہ کی سعادت دیکھیے کہ انہوں نے نہ صرف یہ کہ خو ددریافت کرنے پر اصرار نہیں کیا بلکہ تاکید کہ کہ کسی اور سے بھی اس کا ذکر ہرگز نہ کرنا۔

3

غزوہ قریظہ کے موقعہ پر آنحضرتﷺ نے یہودیوں کا محاصرہ کیا تو یہودیوں نے حضرت ابولبابہ کو قلعہ میں بلوایا کہ آپ سے مشورہ کر کے اپنے مستقبل کے متعلق کوئی فیصلہ کریں۔ کیونکہ ان کے خاندان سے پرانے حلیفانہ تعلقات کی بناء پر انہیں حضرت ابولبابہ پر اعتماد تھا اور خیال تھا کہ وہ ضرور ہماری بہتری کی کوئی بات کریں گے۔ حضرت ابولبابہ قلعہ میں پہنچے۔ تو یہود ان کے جذبہ رحم کو اپیل کرنے کے لیے اپنے بیوی بچوں کو جو روپیٹ رہے تھے ان کے سامنے لے آئے۔ حضرت ابولبابہ نے ان کو مشورہ دیا کہ آنحضرتﷺ کے منشاء کے مطابق چلو۔ اس میں تمہاری بہتر ی ہے۔ اور ساتھ ہی اپنے گلے کی طرف اشارہ کر کے انہیں یہ بات سمجھائی کہ اگر ایسا نہ کرو گے تو قتل کردیئے جاؤ گے۔ یہ اشارہ انہوں نے یہود کے سنگین جرائم اور مسلمانوں کے ساتھ جنگ کے دوران میں عہد شکنی کی وجہ سے اپنے اجتہاد سے کیا کیونکہ وہ یہی خیال کرتے تھے کہ ایسے جرائم کی سزا قتل ہی ہے۔ کرنے کو تو اشارہ کر گئے لیکن واپسی پر جب یہ خیال آیا کہ میرا یہ اشارہ رازداری کے منافی ہے اور اس طرح اشارہ کر کے میں خدا اور اس کے رسول کے ساتھ ایک گونہ خیانت کا مرتکب ہوا ہوں تو گھبرا گئے اور سوچنے لگے کہ مجھے اس کی تلافی کی کوئی صورت کرنی چاہیے۔ اور اپنے خیال سے ہی تلافی کی۔ یہ صورت ان کے ذہن میں آئی کہ سیدھے مسجد نبوی میں پہنچے اور ایک موٹی زنجیر لے کر مسجد کے ستون کے ساتھ اپنے آپ کو باندھ دیا اور کہا کہ جب تک اللہ تعالیٰ کے حضور میری توبہ قبول نہ ہوگی اور میرا گناہ معاف نہ ہوگا۔ اسی طرح بندھا رہوں گا۔ ساتھ آٹھ روز اسی طرح بندھے رہے صرف نماز اور حوائج بشری سے فراغت کے لیے آزاد ہوتے اور فارغ ہوتے ہی ان کے حکم کے ماتحت ان کی لڑکی پھر اسی طرح باندھ دیتی۔ غم کی وجہ سے کھانا پینا بالکل چھوٹ گیا۔ مسلسل فاقہ کشی اور اذیت برداشت کرنے کی وجہ سے صحت پر بہت برا اثر پڑا۔ کان بہرے ہوگئے اور بینائی میں بھی فرق آگیا۔ کئی بار بے ہوش ہو ہو کر گر تے۔ مگر جان کی انہیں کوئی پرواہ نہیں تھی صرف یہ خیال تھا کہ کسی طرح گناہ کی تلافی ہو جائے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے آپ کی توبہ قبول فرمائی۔ آنحضرتﷺ نے اس کا اعلان کیا تو صحابہ کھولنے آئے مگر آپ نے فرمایا آنحضرتﷺ جب تک خود نہ کھولیں گے میں بدستور بندھا رہوں گا۔ خواہ جان کیوں نہ چلی جائے۔ آخر آنحضرتﷺ خود تشریف لائے اور اپنے دست مبارک سے ان کو آزادکیا۔ اس پر اس قدر خوش ہوئے کہ کہا اب تمام گھر بار چھوڑ کر آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضررہوں گا اور کل مال صدقہ کرتا ہوں۔ مگر آنحضرتﷺ نے صرف ایک ثلث کی اجازت دی۔

راز داری کے احساس کے علاوہ اس واقعہ میں ان لوگوں کے لیے بھی ایک سبق ہے جو نہ صرف خود کسی جرم کا ارتکاب کرنے کے بعد اس کی سزا سے محفوظ رہنے کے لیے طرح طرح کے بہانے کرتے اور اپنی غلطی کو تاویلات کے ذریعہ درست ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ دوسرں کے جرائم پر بھی پردہ ڈالنے کی جائز و ناجائز سعی کرتے ہیں۔

4

فتح مکہ کے بعد آنحضرتﷺ نے ساٹھ صحابہ کو بنو ملوح کے مقابلہ کے لیے بھیجا۔ جن میں ایک نوجوان حضرت غالب بن عبداللہ تھے۔ ایک مقام پر پہنچ کر افسر جیش نے ان کو دشمن کی نقل و حرکت اور حالات کی تحقیق کے لیے آگے بھیجا۔ یہ ان کی آبادی کے قریب پہنچ کر ایک بلند ٹیلہ پر چڑھ کر منہ کے بل لیٹ گئے۔ اور دشمن کی حرکات کا جائزہ لینے لگے۔ اتنے میں ایک شخص جس کا مکان ٹیلہ کے قریب تھا گھر سے نکلا۔ اس کی بیوی اس کے ساتھ تھی۔ اس نے یونہی جو اوپر دھیان کیا تو آپ کا سایہ نظر آیا۔ اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ ٹیلہ پر مجھے سایہ نظرآتا ہے شاید کوئی آدمی ہے یا ممکن ہے کوئی کتا وغیرہ ہو۔ جو ہمارے ہاں سے کوئی کھانے پینے کی چیز یا برتن وغیرہ اٹھا کر اوپر جا بیٹھا ہو۔ ذرا گھر میں دیکھو تو سہی کہ کتا کوئی چیز یا برتن وغیرہ تونہیں لے گیا۔ بیوی نے سب کچھ دیکھ بھال کر اطمینان دلایا کہ سب چیزیں محفوظ ہیں۔ اس پر اسے یقین ہوگیا کہ ضرور کوئی آدمی ہے اوربیوی سے کہہ کر تیر کمان منگوایا۔ اور آپ پر دو تیر چلائے۔ جن میں سے ایک تو آپ کے پہلو میں لگا اور دوسرا کندھے میں مگر آفرین ہے اس جواں ہمت پر کہ دو تیر لگے اور جسم کے نازک حصوں میں پیوست ہوگئے۔ لیکن اس قدر زخم کھانے کے باوجود کوئی حرکت کرنا تو درکنار منہ سے اف تک نہ کی کہ مبادا اسے علم ہو جائے اوراس طرح مسلمانوں کا راز افشا ہو کر انہیں کوئی نقصان پہنچے۔ یہ دیکھ کر اس نے خیال کیا کہ محض واہمہ ہے۔ ورنہ یہ کس طرح ممکن تھا کہ کوئی آدمی ہوتا تو اس طرح تیر لگنے پر جنبش تک نہ کرتا۔ چنانچہ وہ مطمئن ہو کر وہاں سے واپس چلا گیا۔ اس کے جانے کے بعد آ پ نے تیر کھینچ کر باہر نکالے۔

5

آنحضرتﷺ نے منافقین کے نام حضرت حذیفہ کو بتادئیے اور اس وجہ سے ان کا لقب ہی “سر رسول اللہ” پڑ گیا تھا۔ چونکہ اس راز کے افشاء کی آنحضرتﷺ نے آپ کو اجازت نہ دی تھی۔ اس لیے آپ نے کبھی ان ناموں کو ظاہرنہیں کیا۔ ایک بار حضرت عمر نے ان سے دریافت کیا کہ میرے عمال میں کوئی منافق ہو تو بتائیے۔ کہ میں ان کے ضرر سے اسلام کو بچانے کا انتظام کرسکوں مگر آپ نے جواب دیا کہ ایک ہے تو سہی مگر افسوس ہے کہ میں اس کا نام نہیں بتاسکتا۔ کہ اس طرح آنحضرتﷺ کے راز کے افشا کا مجرم ہوں گا۔

6

آنحضرتﷺ اور حضرت ابوبکر جب بہ ارادہ ہجرت مکہ سے نکلے تو حضرت ابوبکر نے اپنے نوجوان فرزند حضرت عبداللہ کو ہدایت کی کہ قریش کی نقل و حرکت کا اچھی طرح خیال رکھیں۔ اور روز شام کے بعد غارِ ثور میں پہنچ کر اطلاع دیا کریں۔ چنانچہ آپ اس حکم کی تعمیل نہایت رازداری سے کرتے رہے۔ شام کا اندھیرا ہوتے ہی غار ثور میں پہنچ جاتے۔ اور رات وہیں ٹھہر کر سفیدی صبح نمودار ہونے سے قبل واپس آجاتے۔ اسی طرح حضرت ابوبکر کے خادم عامر بن فہیرہ کے سپرد یہ کام تھا کہ دن بھربکریاں چرائیں اور رات کو دودھ وہاں پہنچایا کریں۔ چنانچہ وہ بھی اس کی تعمیل اس احتیاط کے ساتھ کرتے رہے کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ تین رات تک برابر یہ انتظام رہا مگر اس قدررازداری کے ساتھ کہ قریش کو جو آنحضرتﷺ کی تلاش میں دیوانہ وار دشت و جبل کی خاک چھان رہے تھے مطلقاً خبر نہ ہوئی۔

حوالہ جات

  1.  (مستدرک حاکم ج3 ص335)
  2.  (بخاری کتاب الادب)
  3.  (مسند احمد ج3 ص 453) ؟
  4.  (اسد الغابہ ج4 ص34) (سیرۃ ابن ھشام ج4 سریۃ بنی ملوح)
  5.  (اسد الغابہ ج1 ص235)
  6.  (بخاری کتاب المناقب)